لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا﴾ (النساء:۱۵۰،۱۵۱)
’’بے شک وہ لو گ خدا اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان جدائی پیدا کریں اور کہتے ہیں کہ بعض کو تو مانتے ہیں مگر بعض دوسروں کو نہیں مانتے، اور وہ چاہتے ہیں کہ ایک درمیانی راستہ اختیار کر لیں ۔ یہ لوگ درحقیقت پکے کافر ہیں ۔‘‘
قسم سوم:
بعض لوگ حقیقت کونیہ اور توحید ربوبیت جس میں تمام مخلوق شامل ہے، کی شہادت دیتے ہیں ۔ تمام انسانوں کے قضا و قدر کے ماتحت ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اس حقیقت کو اپنا مسلک قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ احکام کے اطاعت گزار مومنوں ، متقیوں اور خدا کے نافرمان کافر و بدکار لوگوں کو یکساں خیال کرتے ہیں ۔ یہ لوگ یہود و نصاریٰ سے بڑھ کر کافر ہیں ۔
ہاں بعض لو گ ایسے بھی ہیں جو اتباعِ ظن و ہوا کی بنا پر بعض امور میں فرق کرتے ہیں اور بعض میں نہیں ۔ مثلاً مومن و کافر میں فرق کرتے ہیں مگر نیک و بد میں نہیں ۔ یا بعض ابرار و فجار میں فرق کرتے ہیں ، دوسروں میں نہیں ۔ اس بنا پر جس قدر وہ ابرار و فجار میں تسویہ (برابری) کریں گے، اسی قدر ان کا ایمان ناقص ہو گا۔ ان میں ایمان صرف اسی قدر باقی ہو گا جس قدر وہ خدا کے دوستوں اور دشمنوں میں فرق روا رکھیں گے۔
قسم چہارم:
اور بعض لوگ امر و نہی دینیہ کا اقرار اور قضا و قدر کا انکار کر کے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجوسیوں یعنی معتزلہ وغیرہ کی طرح قدریہ ہو گئے لہٰذا وہ مجوس ٹھہرے اور یہ مشرکین جو مجوسیوں سے بھی بدترین ہیں اور جو شخص ان دونوں کا اقرار کرے، مگر خدا تعالیٰ کی متناقض ٹھہرائے وہ ابلیس کا چیلا ہے جس نے خدائے سبحانہ و تعالیٰ پر اعتراض کیا اور جھگڑے کی ٹھانی۔ چنانچہ اس
|