Maktaba Wahhabi

220 - 485
دار السلام اور دار الکفر کی وجہ تسمیہ: ایک ملک میں کافر رہتے ہیں ، اس لیے اس کو دار الکفر کہا جاتا ہے۔ لیکن وہی لوگ جب اسلام اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی وجہ سے وہی سرزمین دار السلام کہلاتی ہے۔ چنانچہ مکہ معظمہ ابتدا میں دارالکفر اور دار الحرب تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فتح کیا تو وہ دار السلام بن گیا۔ اسی طرح ارضِ مقدسہ میں پہلے کافر اور جبار لوگ رہتے تھے،جن کا قصہ سورۂ مائدہ کے پانچویں رکوع میں مفصل مذکور ہے اور قرآن کریم میں اس کو ’’دار الفاسقین‘‘ کہا ہے۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے غرق ہونے سے نجات دی تو ان سے اس طرح خطاب فرمایا: ﴿سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْن﴾ (الاعراف:۱۵۶) ’’عنقریب میں تم کو نافرمان لوگوں کا ملک اور وطن دکھاؤں گا۔‘‘ اس وقت وہ ملک فی الواقع دار الفاسقین تھا، کیونکہ اس میں اللہ کے نافرمان بندے رہتے تھے لیکن جب اس میں بنی اسرائیل کی قوم کے صالحین سکونت پذیر ہو گئے تو وہ ملک دارالصالحین بن گیا۔ کسی جگہ کا محمود و مذموم ہونا: یہ ایک ایسا اصول ہے جس کا پہچاننا نہایت ضروری ہے کیونکہ ایک ہی جگہ (شہر یا ملک ) کے رہائشیوں کی حالت مختلف ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں محمود اور قابل تعریف اور دوسرے وقت میں مذموم اور قابل نفرین ہوتی ہے۔الغرض جگہوں کی خوبی یا عدم خوبی ہمیشہ ایک اضافی امر ہو تا ہے اور در اصل یا ذم ایمان اور صالح کے وجود اور عدم وجود پر مرتب ہوتی ہے۔ انسان کی فضیلت کا انحصار: اسی طرح آدمیوں کی فضیلت بھی کچھ باپ دادا پر منحصر نہیں ، بلکہ اس کا تعلق خود ان کے ذاتی کمالات اور خوبیوں ، ایمان اور عملِ صالح سے ہے۔کلام پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
Flag Counter