Maktaba Wahhabi

382 - 485
احتجاج بالقدر کے بطلان کی چند وجوہ پہلی وجہ: یہاں دو صورتیں ہیں ، یہ لوگ انسان کے لیے تقدیر کو حجت سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ اگر حجت نہ سمجھ کر انسان کو با اختیار سمجھیں تو ہمارا مدعا ثابت ہوا۔ اگر حجت سمجھیں تو ایک نہیں بلکہ تمام انسانوں کے حق میں حجت ہو گی، کیونکہ سب انسان تقدیر میں مشترک ہیں ۔بحالتِ تسلیم انہیں یہ لازم آئے گا کہ اگر کوئی شخص ان پر ظلم کرے، گالی گلوچ دے، مال غصب کرے اور اس کے حرم( بیوی بچوں ) کی بے عزتی کرے، قتل و غارت گری تک نوبت پہنچائے، نسل و زراعت کو تباہ و برباد کرے، تو برا نہ مانے (اور اس کے ہاتھ نہ روکے)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام سراسر مفتری و کذاب اور خود ہی اپنے دعویٰ کے توڑنے والے ہیں ، کیونکہ ان کا ہر فرد ہمیشہ اس (ظالم و فسادی) کی مذمت کرتا اور اس سے عداوت رکھتا ہے اور اس کی مخالفت کرتا رہتا ہے (اسی پر ہی بس نہیں ) بلکہ جو انہیں (فسادی کو برا کہنے سے) منع کرے،ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ، اس سے بغض و عداوت رکھنے لگتے ہیں اور اسے برا سمجھتے ہیں ، لہٰذا جب محرمات کے مرتکب اور واجبات کے تارک کے حق میں تقدیر حجت تھی تو ان کا فرض تھا کہ نہ کسی کی مذمت کرتے، نہ کسی سے بغض رکھتے، اور نہ کسی کے ظالم و سفاک ہونے کا شکوہ کرتے، خواہ وہ کچھ بھی کرتا پھرے۔ اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کا ارتکاب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ۔ اگر لوگ اس کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو دنیا برباد ہو جائے۔ نتیجۂ بحث: لہٰذا واضح ہو گیا کہ ان کا یہ قول جیسا کہ شرعاً کفر ہے، عقلاً بھی فاسد ہے اور وہ اپنے اس دعویٰ میں کہ ’’ تقدیر بندے کے حق میں حجت ہے‘‘ بالکل مفتری و کذاب ہیں ۔
Flag Counter