الْاَجْوَفَانِ الْفَمُ وَالْفَرَجُ۔))
’’دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ! کون سی چیز سب سے زیادہ لوگوں کوجنت میں پہنچائے گی؟فرمایا اللہ کا تقویٰ اور حسنِ خلق۔ پھر عرض کیا گیا: کون سی چیز سب سے بڑھ کر لوگوں کو جہنم رسید کرے گی؟ فرمایا: دو کھوکھلی چیزیں (۱) منہ جس سے حرام کھا کر، کلماتِ کفر و شرک کہہ کر، جھوٹ چغلی وغیرہ کر کے آدمی دوزخی ہو سکتا ہے۔(۲) فرج جو زنا وغیرہ کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔‘‘
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
((قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَاناً اَحْسَنُھُمْ خُلُقاً۔))
’’ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ کامل الایمان وہی شخص ہو سکتا ہے جو سب سے زیادہ بااخلاق ہو۔‘‘
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ ایمان کی علامت واضح فرما دی کہ کمالِ ایمان، حسن خلق کے کمال پر موقوف ہے۔یعنی جو حسنِ اخلاق میں کامل ہو گا اس کا ایمان بھی کامل ہو گا اور یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ ایمان تمام تر تقویٰ ہے۔
تقویٰ کے اصول و فروع پر یہاں بحث کی گنجائش نہیں کیونکہ اس میں تو پورا دین داخل ہے۔
اخلاص:
ہاں تمام نیکیوں کا سر چشمہ اور جڑ محض اخلاص فی العبادات ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت و استعانت کوپورے اخلاص کے ساتھ خدا سے اس طرح مخصوص کر دے کہ اپنا قلبی تعلق تمام خلائق و علائق سے بالکلیہ منقطع کر دے۔ نہ ان سے نفع کی توقع رکھے اور نہ ان کی خاطر کسی قسم کا عمل و فعل کرے بلکہ محض رب العزت کو اپنا مقصودِ کلی ٹھہر اکر دنیا سے الگ تھلگ ہو جائے۔ اسی اخلاص کو باری تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات میں بیان فرمایا ہے:
|