خلق عظیم کی تفسیر:
رہی خلق عظیم کی تفسیر جس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر، رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو متصف فرمایا ہے، تو اس سے مراد دین کامل ہے، جو مطلقاً تمام اوامر الٰہیہ پر مشتمل ہے۔مجاہد وغیرہ مفسرین رحمہم اللہ کا یہی قول ہے اوریہی قرآن کریم کا مدعا و مقصود ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ((کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن)) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن کریم تھا۔‘‘اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبوب و پسندیدہ چیزوں کو بطیب خاطر پورے انشراحِ صدر کے ساتھ ادا کرنے میں جلدی کرے اورسعی و کوشش بجا لائے۔
تقویٰ کی دوقسمیں
۱۔ اوامر و نواہی:
باقی رہا یہ بیان کہ یہ تمام چیزیں وصیت اللہ یعنی ﴿وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ﴾ میں داخل ہیں ، اسے یوں سمجھنا چاہیے کہ لفظ تقویٰ تمام اوامرِ الٰہیہ کو خواہ وہ امر واجب ہو یا مستحب، اور تمام نواہی کو خواہ وہ نہی تحریمی ہو یا تنزیہی، سب کو جامع ہے اور یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر مشتمل ہے۔
۲۔ خشیت الٰہی:
لیکن چونکہ تقویٰ سے بعض دفعہ عذاب الٰہی سے ڈرنا مراد لیا جاتا ہے جو حرام کاموں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے، اس لیے حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ میں اس کی پوری تفسیر کردی گئی ہے۔
علیٰ ہذا القیاس سنن ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے جس کا مفہوم پہلی سے وسیع تر ہے ۔ الفاظ یہ ہیں :
((قَبْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَا اَکْثَرُ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ قَالَ تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَقِیْلَ مَا یُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ قَالَ
|