موجود تھے، لڑکیوں کی طرف پیٹھ تھی اور دیوار کی طرف منہ تھا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لڑکیوں کی شوخی دیکھ کر خفا ہو گئے اور ڈانٹ کر کہنے لگے: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی یہ آواز؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انہیں منع کیا اور کہا اے ابو بکر ! رہنے بھی دو، ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہم مسلمانوں کی عید ہے۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اس قسم کے سماع کے عادی نہ تھے، اسی لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کی آواز قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کو ان کے حال پر اس لیے رہنے دیا تھا کہ وہ عید کا دن تھا اور بچوں کو ایسے موقعوں پر کھیلنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: تاکہ مشرکین جان لیں کہ ہمارے دین میں آسانی ہے۔ اور جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں ۔
عمداً راگ سننے اور بلاقصد کان میں آواز پڑجانے کا حکم:
اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارادتاً لڑکیوں کا گانا سن رہے تھے،کیونکہ امر و نہی کا تعلق قصد و ارادہ کے ساتھ گانا سننے سے ہے نہ کہ مجرد سن لینے سے۔ اسی طرح نظر کا معاملہ ہے۔ بے اختیار نظر پڑجانے میں کوئی حرج نہیں ،لیکن قصد و ارادہ کے ساتھ نظر بد ممنوع ہے اور اسی طرح احرام کی حالت میں حاجی کے لیے خوشبو سونگھنا روا نہیں لیکن بغیر قصد و ارادہ کے اگر اسے خوشبو محسوس ہو جائے تو کوئی مواخذہ نہیں ۔
یہی تشریح اس حدیث کی بھی کی گئی ہے جو سنن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، راستے میں کسی چرواہے کی بانسری کی آواز سنائی دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہ راستہ چھوڑ دیا، اور دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آواز منقطع ہو گئی۔اس حدیث سے بعض لوگ جواز سماع پر استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کان بند کر لینے کا حکم نہیں دیا۔ اگر یہ حدیث صحیح
|