Maktaba Wahhabi

258 - 485
تیسرا قاعدہ: جب کبھی عالم یا سالک کو کسی چیز میں شبہ پڑ جائے کہ وہ مباح ہے یا حرام ہے‘ تواس کے نتیجہ‘ غرض اور ثمرہ پر غور کرے‘ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس سے نقصان و فساد کا قوی احتمال ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ شارع نے ہرگز ہرگز اس کا حکم نہیں دیا اور نہ اسے مباح قرار دیا ہے، بلکہ یقین کر لینا چاہیے کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے، خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ وہ چیز انسان کو اس جانب لے جانے والی ہو جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک مکروہ و مبغوض ہے‘ حکیم و خبیر اللہ نے سوئی کے سرے کے برابر بھی شراب کو حرام کر دیا ہے‘ کیونکہ اس سے شراب خواری کی ترغیب ہو سکتی ہے اور شراب خواری محرمات کے ارتکاب کا سبب ہوتی ہے،اگر یہ صحیح ہے تو پھر کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہی حکیم و خبیر گانے بجانے کو مباح قرار دے گا‘ حالانکہ وہ شراب سے زیادہ محرمات کی طرف ترغیب دینے والا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے کہ گانا زنا کا افسوں ہے۔ یہ صحیح ہے اور مشاہدہ اس کی تائید کرتا ہے۔ جس نو عمرکو بھی اس کا شوق ہو گیا وہ بگڑ گیا، جس عورت کو بھی اس کی چاٹ پڑ گئی وہ آوارہ گئی، جس جوان اوربوڑھے نے اس کی مزاولت رکھی وہ حرام میں مبتلا ہو گیا۔ یہ مشاہدہ ہے، اکثر لوگ اس کی تائید کر سکتے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا اس بارے میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز کی حقیقت و ماہیت پر غور کرنا چاہیے‘ پھر اس کی حلت‘ کراہت یا اباحت کا فیصلہ کر نا چاہیے‘ گانا ایک اسم ہے اور اس کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک گانا حاجیوں کا ہے، اس میں وہ کعبہ، زمزم اور مقام ابراہیم وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے گانے سننا جائز ہے۔ ایک گانا مجاہدین کا ہے، اس میں وہ جہاد، شہادت کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ بھی جائز ہے۔ اسی طرح اونٹوں کے سامنے حدی خوانوں کا گانا ہے، یہ بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور اپنے حدی خوان سے فرمایا ’’اونٹوں پر شیشے ہیں ، انہیں آہستہ آہستہ چلا۔‘‘ اونٹوں پر
Flag Counter