اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ، اَوْ اِسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، اِنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنِ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ، وَنُوْرَ صَدْرِیْ، وَجَلَائَ حُزْنِیْ، وَذَھَابً ھَمِّیْ وَغَمِّیْ۔))
صحابہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! ہم ان کلمات کو سیکھ لیں ؟ فرمایا: جو ان کلمات کو سنے چاہیے کہ سیکھ لے۔
۶۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے فرمایا کہ ’’کسوف و خسوف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں ۔ ان کو کسی کی پیدائش یا موت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے لوگوں کو اپنا جلال و جبروت دکھاتا ہے۔ جب تم اس کو دیکھو تو گھبراہٹ سے نماز اور اللہ کا ذکر اور استغفار کی طرف پناہ لو، صدقہ دو، غلام آزاد کرو۔‘‘
ان سے یہ نہیں فرمایا کہ کسوف و خسوف دیکھ کر کسی مخلوق یا ملائکہ یا اولیاء کو پکاریں ۔
اس قسم کے واقعات آپ کی سنت میں بکثرت موجو دہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے مسلمانوں کے لیے خوف کے وقت اور کوئی بات مشروع نہیں کی مگر وہی جس کا حکم اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ سے دعا کریں ، اس کا ذکرکریں ، غلام آزاد کریں ، صدقہ اور اسی قسم کی اور خیرات کریں ۔
پھر مومن سے کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا مقرر کردہ راستہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت کی راہ اختیار کرے، جس کے لیے شریعت میں کوئی دلیل نہیں ، محض نصاریٰ اور مشرکین کی تقلید ہے۔
شرک کرنے کی وجہ سے کرشموں کا ظہور:
اگر کوئی یہ کہے کہ اس طرح بزرگ ہستیوں کے پکارنے سے اس کی حاجت پوری ہو گئی اور شیخ کی صورت اس کے سامنے آگئی، تو ان کو مطلع ہونا چاہیے کہ ستارہ پرستوں اور بت پرستوں وغیرہ مشرکوں کو بھی ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں ۔ چنانچہ گزشتہ اور موجودہ زمانہ
|