حلاوتِ ایمانی
ہرقل شاہِ روم کے تاثرات:
صحیح بخاری میں ہے کہ ہرقل شاہِ روم نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ابو سفیان بن حرب سے مستفسرہ امور میں سے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص متنفر و رنجیدہ خاطرہو کر مرتد تو نہیں ہوتا؟ ابو سفیان نے جواب دیا ’’نہیں ‘‘ اس پر ہرقل نے کہا:
((وَکَذٰلِکَ الْاِیْمَانُ اِذَا خَالَطَتْ بِشَاشَتُہٗ الْقَلْبَ لَا یَسْخَطُہٗ اَحَدٌ۔))
’’واقعی حلاوت ایمانی کی تازگی جب دل میں سرایت کر جاتی ہے تو اسے کوئی بھی ناپسند نہیں کرتا۔‘‘
لذتِ ایمان سے عدم نفرت:
غرض کہ ایمان جب دل میں رچ جائے اور اس کی تر و تازگی دل میں پوری طرح سرایت کر جائے تو اس سے نفرت تو درکنار، خود اس سے محبت کرتا ہے، اسے پسند کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں ایمان کی اس قدر حلاوت و لذت اور خوشی و شادمانی ہوتی ہے کہ اس کے ذوق سے نا بلد آدمی کے سامنے اس کی تعبیر نا ممکن ہے۔
ذوقِ ایمانی کے مدارج میں لوگ ایک دوسرے سے بالکل متفاوت ہیں ۔ جس قدر ذوق ہو گا اسی قدر دل میں پیدا شدہ فرح و سرور کی شگفتگی اور صدق و صلاح اور اطاعت ہو گی اورجب یہ دل میں پختہ طور پر سما جائے تو دل اسے کبھی ناپسند نہیں کرتا۔
شہادتِ قرآنی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|