Maktaba Wahhabi

421 - 485
مطلوب ہے جو میرے لیے تمام چیزوں سے وسیع تر ہے۔ میں تیرے غصہ و غضب کے نزول سے تیرے چہرۂ اقدس کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس کے سامنے تمام تاریکیاں روشنی سے بدل جاتی ہیں اور جس کے باعث دنیا و آخرت کے معاملات درست ہو جاتے ہیں ۔ تو اتنا بے نیاز ہے جتنی تیری رضا ہے۔‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نماز فجر میں ﴿اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ﴾ پڑھا کرتے اور اس قدر روتے کہ آپ کی آواز آخری صفوں تک پہنچتی۔ شکوہ الی المخلوق اور صبر جمیل میں منافاۃ: مگر شکوہ الی المخلوق، شکوہ الی اللہ کے برعکس صبر جمیل کے بالکل منافی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے ان کے مرض الموت میں کہا گیا کہ عبدالرحمن اور طاؤس بن کیسان (مشہور تابعی) نے رونے کو مکروہ سمجھا اور فرمایا کہ یہ بھی شکوہ ہے، تو مرتے دم تک آپ کی زبان سے آہ کا لفظ بھی نہ سنا گیا۔ وجہ منافات: یہ اس لیے شکوہ ہے کہ مریض زبانِ حال سے مضرات کے دفعیہ اور مفید چیزوں کے حصول کا طالب ہوتا ہے اور انسان مامور ہے کہ تمام مخلوق سے دستبردار ہو کر محض اپنے پروردگار ہی سے سوال کرے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿فَاِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ﴾ (الانشراح:۷۔۸) ’’جب تم دوسرے مشاغل سے فارغ ہو جاؤ تو عبادت کی ریاضت کرو اور اپنے پروردگار کی طرف پورے پورے متوجہ ہو جاؤ۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ((اِذَا سَئَالْتَ فَسْئَالِ اللّٰہَ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ۔)) ’’جب تجھے کوئی سوال کرنا ہو تو اللہ سے کرنا اور مدد طلب کرنی ہو تو بھی اسی سے
Flag Counter