سے) نتیجہ اخذ کر لیا کہ وہاں شہد ہو گا۔
مثالِ دوم:
عین الیقین کی مثال یہ ہے کہ کسی نے شہد کو محض سنا ہی نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ و معائنہ بھی کیا ہے۔ یہ مقام پہلے سے اعلیٰ ہے، جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((لَیْسَ الْمُخْبَرُ کَالْمُعِایِنْ۔))
’’سننے والا شخص معائنہ کرنے والے کے برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘
مثالِ سوم:
حق الیقین کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے شہد کو محض دیکھا ہی نہ ہو بلکہ اسے چکھا ہو اور اس کا مزہ و شیرینی بھی حاصل کر چکا ہو۔ اور ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ علم کا یہ درجہ پہلے درجہ یعنی علم الیقین سے اعلیٰ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عارف لوگوں کی زبان پر جب حق الیقین کا لفظ آتا ہے تو اس سے ذوق و وجدان کی طرف اشارہ ہوتا ہے، جو انہیں بارگاہِ ایزدی سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((ثَلاَثُ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَمَنْ کَانَ یَحِبُّ الْمَرْئَ لَایُحِبُّہٗ اِلَّا لِلّٰہِ وَمَنْ کَانَ یَکْرَہٗ اَنْ یَرجِعَ اِلیٰ الْکُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُّلْقیٰ فِی النَّارِ۔)) (بخاری ومسلم)
’’ جس شخص میں تین چیزیں ہوتی ہوں تو (یقین جانیے کہ) وہ حلاوتِ ایمان سے بہرہ ور ہو چکا ہے: (اول) وہ شخص جسے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات سے زیادہ محبوب ہوں ۔ (دوم) جو کسی سے (دنیا کی خاطرنہیں بلکہ) لوجہ ِ اللہ محبت رکھتا ہو۔ (سوم) جو شخص کفر سے نجات پانے( اور قبولِ حق) کے بعد ارتدادِ کفر کو
|