Maktaba Wahhabi

248 - 485
ہے تو جواب یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما قصد و ارادہ کے ساتھ بانسری نہیں سن رہے تھے کہ انہیں منع کیا جاتا،ایک آواز بلند تھی اور بے اختیار سنائی دیتی تھی اور اس میں کوئی گناہ نہیں کہ آدمی بے اختیار کوئی آواز سن لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے سے اس لیے ہٹ گئے تھے کہ یہی افضل و اکمل تھا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ راستے میں کچھ لوگ حرام گفتگو کر رہے ہوں ، متقی راہ گیر اپنے کان بند کر لے تو بہتر ہے،لیکن اگر ایسا نہ کرے تو بھی گنہگار نہ ہو گا،بشرطیکہ بالارادہ ان کی گفتگو نہ سنے اور اس گفتگوسے کوئی ایسی دینی نقصان دینے والی چیزپیدا نہ ہوتی ہو کہ جس کا کسی حال میں بھی سننا روا نہیں ۔ راگ سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی: مسئلہ سماع میں بہت سے متاخرین نے بحث کی ہے کہ وہ ممنوع ہے یا مکروہ ہے یا مباح؟ لیکن ان میں سے اکثر کی غرض قیل و قال سے یہ نہیں ہے کہ رفع حرج و تکلف کیا جائے یعنی گانا سننے کی اجازت ثابت کی جائے بلکہ ان کی غرض بالکل جدا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گانے بجانے کو عبادت و تقرب الی اللہ کا ذریعہ ثابت کریں ، طبلہ و رباب پر غزلیں گائی جائیں ، محبوب کے محاسن بیان کیے جائیں ،وصل کا شوق پیدا کیا جائے اور فراق پر نوحہ و ماتم کیا جائے تو ان کے خیال میں اللہ اس سے خوش ہوتا ہے، بندہ کا اس طرح اس سے اتصال پیدا ہو تا ہے، اس کی رحمت نازل ہوتی ہے، اہل ایمان کے وجد میں ترقی ہوتی ہے، اہل معرفت کے کیفیات قلبی مجلا ہو جاتے ہیں ، بلکہ بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ چیز خواص کے لیے قرآ ن کے سماع سے بھی زیادہ افضل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سماع میں قلب و روح کے لیے تسکین و غذا ہے اور یہ سماع نفس کو اللہ کی طرف مائل کرتا اور اس کی محبت سے سرشار کر دیتا ہے۔(نعوذ باللہ) راگ کے عادی صوفیہ کو قرآن مجید کی سماع سے لذت حاصل نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ جولوگ اس سماع کے عادی ہو جاتے ہیں ، قرآن سے انہیں شغف باقی نہیں رہتا،تلاوت میں کوئی لطف حاصل نہیں ہوتا،آیات الٰہی کی ترتیل ان میں وہ گرمی پیدا نہیں کرتی جو غزلیں سننے
Flag Counter