Maktaba Wahhabi

202 - 485
تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’مجھے اس اللہ کی قسم ! جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجاکہ ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔‘‘ اس پر فریق ثانی نے قصاص کا مطالبہ چھوڑ دیا اور دیت پر راضی ہو گئے، جس سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی قسم پوری ہوگئی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِن من عبادہ اللہ من لو اقسم علی اللّٰہ لابرہ۔)) [1] ’’اللہ تعالیٰ کے بندوں میں ایسے بندے بھی ہیں جو اگر قسم کھا کر اللہ تعالیٰ سے کوئی التماس پورا کرانے پر اصرار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پورا کرتا ہے۔‘‘ توسل کے مشروع وسائل: انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی طرح ایک موقع پر براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی کہا تھا کہ یا الٰہی! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ایسا کرے! چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم پوری کی۔[2] انسان ہمیشہ اپنے رب تعالیٰ سے سوال کرتے ہوئے ان اسباب کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے جو اس کے مطلوب کے مقتضا ہیں ۔یعنی : ۱۔ اعمالِ صالحہ جن پر اللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں سے ( جو مستجاب الدعوات ہیں )د عا کرائے، جیسے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کبریا میں اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے چچا عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے صالحین کی دعا سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ نے استسقاء کے موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی تھی،جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ اور اسی قبیل سے
Flag Counter