ترجیحِ خواہشات پر عقل کے نتائج:
اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اب اگر آپ غور و تامل سے ایک بدحال وبدعادت شخص کی حالت ملاحظہ فرمائیں تو آپ دیکھ لیں گے کہ اس کی ابتدا دو چیزیں تھیں ، ایک انہماک بہ خواہشات، دوم عقل و فکر پر خواہشات کو ترجیح۔ جس کی ابتدا مخالفتِ خواہشات و داعیِ رشد کی اطاعت ہوگی، اس کی انتہا عزو شرف، غنا و تونگری اور خدا و مخلوقِ خدا کے ہاں قدر و منزلت ہو گی۔
شباب میں ترکِ خواہشات کا نتیجہ حسنہ:
ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’جو شخص شباب میں خواہشات و شہوات پر قابو رکھے خدا تعالیٰ اسے کہولت و بڑھاپے میں عزت و وقار عنایت فرمائے گا۔‘‘
ضبط و دانشمندی:
مہلب بن ابی صفرہ سے دریافت کیا گیا،آپ کویہ سب کچھ کیسے حاصل ہوا؟ انہوں نے جواب دیا ضبط و دانشمندی کی اطاعت اور خواہشات کی نافرمانی و انکار کی بدولت۔
یہ تو تھا دنیا کا آغاز و انجام۔ رہی آخرت، تو اس میں اللہ عزوجل نے منکر و مخالف خواہشات کا انجام و انتہا جنت، اور خواہش پرست کی انتہا نارِ جہنم مقرر فرمائی ہے۔
خواہشات اور غلامی و آزادی:
۴۷۔ خواہش و ہوائے نفس دل کے لیے غلامی ،گردن کا طوق اور پاؤں کی بیڑی ہے اور اس کا پیرو ہر بدخصلت و بدعادت کا اسیر ہوتا ہے توجو شخص اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو کر اس کی اطاعت سے انکار کر دے وہ اس کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور گردن سے طوق اور پاؤں سے بیڑی اتر جاتی ہے اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو پہلے رَجُلًا فِیْہِ شُرَکَائُ مُتَشَاکِسُوْنَ یعنی بہت سے لوگوں کا مشترکہ غلام تھا اور اب سَلَمًا لِّرَجُلٍ یعنی محض ایک کا غلام ہو گیا:
((رُبَّ مَسْتُوْرٍ سَبَتْہُ شَھَوْۃٌ فَتَعَرّٰی سِتْرُہٗ فَانْھَتَکا صَاحِبُ
|