((ثَلاَثٌ مُنْجِیَاتٌ وَثَلاَثٌ مُھْلِکَاتٌ فَاَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَی اللّٰہِ عَزَّ وَّجَلَّ فِی السِّرِّ وَالْعَلاَنِیَۃِ وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِی الرِّضَا ئِ وَالسَّخَطِ وَالْقَصْدُ فِی الْغِنٰی وَالْفَقْرِ وَاَمَّا الْمُھْلِکَاتُ فَھَوًی مُّتَّبَعٌ وَشَحَ مُّطاعٌ وَاِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہٖ۔)) (مسند وغیرہ بروایت انس و اوسط طبرانی وغیرہ)
’’تین چیزیں موجب نجات ہیں : (۱) جلوت وخلوت میں خدا کا ڈر، (۲) غضب و غصہ اور خوشی کی حالتوں میں سچی بات، (۳) تونگری اور فقیری میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ۔اور تین امر مہلک ہیں : (۱) آزاد خواہش پرستی، (۲) بخل کی غلامی، (۳) غرور وخود پسندی (ہمچو ما دیگرے نیست )۔‘‘
ترکِ خواہشات سے توانائی:
۲۷۔ مخالفتِ خواہشات سے بدن میں توانائی ،دل میں طاقت اور زبان میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: خواہشات کو مغلوب کر لینے والا انسان پورے شہر کو تنہا فتح کر لینے والے شخص سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
حقیقی پہلوان کون ہوتا ہے ؟
صحیح ومرفوع حدیث میں ہے:
((لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَعَۃِ وَلٰکِنَّ الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ۔)) (صحیحین و مسند احمد)
’’پہلوان وہ شخص نہیں جو لوگوں کو پچھاڑتا پھرے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھے۔‘‘
غرض کہ مخالفتِ خواہشات کی جتنی پریکٹس (مشق)کی جائے گی اتنا ہی قوت پر قوت حاصل ہو گی۔
|