Maktaba Wahhabi

154 - 485
کے مشرکین سے اس قسم کے واقعا ت بتواتر منقول ہیں ۔ اگر ایسے کرشمے ظہور پذیر نہ ہوتے تو بتوں وغیرہ کی کوئی پرستش نہ کرتا۔ چنانچہ حضر ت خلیل علیہ السلام نے دعا کی: ﴿وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ( ابراہیم :۳۵، ۳۶) ’’اے اللہ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھنا۔ اے میرے رب! بتوں نے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر رکھا ہے۔‘‘ اور کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے مکہ میں شرک کا ظہور عمرو بن لحی الخزاعی کی طرف سے ہوا، جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کی انتڑیاں پڑی ہیں اور دوزخ میں ان کو کھینچتا پھرتا ہے۔ اوّل اوّل اس نے سانڈ چھوڑے تھے اور اسی نے دین ابراہیم علیہ السلام کو مسخ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ شام میں وارد ہوا اور وہاں دیکھا کہ بلقاء میں بت دھرے ہیں جن کے متعلق لوگوں کا خیال تھا کہ جلب منافع اور دفع مضار میں وہ ان کی مدد کرتے ہیں ، تو وہ ان بتوں کو مکہ میں اٹھا لایا اور عرب میں شرک و بت پرستی کو رواج دیا اور وہاں ان محرمات کو رائج کیا جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا تھا، مثلاً شرک، سحر، خونِ ناحق، جھوٹی شہادت وغیرہ۔ کبھی ان محرما ت میں حظ نفس اور طبعی میلان ہوتا ہے جن حظوظ کو نفس امارہ منفعت یا دفع مضرت تصور کرتا ہے۔ اگر یہ حظوظ ان میں نہ ہوتے تو کبھی نفوس ان کے ارتکاب کی جرأت نہ کرتے جن میں فی الحقیقت مطلق کوئی خیر یا بھلائی نہیں ہوتی۔ شرک اور دیگر محرمات میں پڑنے کے دو سبب، جہالت اور اتباع: صرف جہالت اور احتیاج ہی نفوس کو محرمات میں جا ڈالتی ہے، ورنہ جس کو اس چیز کی قباحت کا علم ہو اور یہ جانتا ہو کہ شرع میں اس سے نہی وارد ہے، وہ کیوں کر اس کا ارتکاب کر سکتا ہے؟ اور جو لوگ ان سب امور کو کر گزرتے ہیں وہ کبھی تو جاہل اور نادان ہو تے ہیں جو
Flag Counter