Maktaba Wahhabi

463 - 485
’’خدایا! میں تجھ سے تیرا فضل یعنی رزق چاہتا ہوں ۔‘‘ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر جو ارشاد فرمایا، اس میں بھی اس کی تلقین ہے۔ فرمایا: ﴿فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ﴾ (العنکبوت:۱۷) ’’خدا سے رزق مانگو، اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر بجا لاؤ۔‘‘ اِبْتَغُوْا امر کا صیغہ ہے اور امر مقتضیِ وجوب ہے۔ الغرض طلبِ رزق میں خدا سے استمداد کرنا اور اسی کے سامنے التجا کرنا بڑا بھاری اصول ہے۔ دوسرا اصول: طلبِ رزق میں دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ انسان مال کو بالکل بے پروائی و بے دلی سے قبول کرے کہ اس میں برکت ہو۔ ہر وقت اس کی تاک میں نہ لگا رہے، نہ ہی طمع و لالچ سے حاصل کرے بلکہ دل میں اس کی وقعت محض اسی قدر ہونی چاہیے جتنی بیت الخلا کی کہ انسان خوشی سے نہیں بلکہ رفعِ حاجت کے لیے اس کی طرف جانے پر مجبور ہوتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس! تحصیلِ مال میں بھی صرف اتنی کوشش ہونی چاہیے جتنی بیت الخلا کی اصلاح میں ہوتی ہے۔ جامع ترمذی وغیرہ میں مرفوعاً آیا ہیـ: ((مَنْ اَصْبَحَ وَالدُّنْیَا اَکْبَرُھَمِّہٖ شَتَّتَ اللّٰہُ عَلَیْہِ شَمْلَہٗ وَفَرَّقَ عَلَیْہِ ضَیْعَتَہٗ وَلَمْ یَاْتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا مَاکُتِبَ لَہٗ وَمَنْ اَصْبَحَ وَالْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ ھَمِّہٖ جَمَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ شَمْلَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَاَتَتْہُ الدُّنْیَا وَھِیَ رَاغِمَۃٌ)) ’’جس کو صبح ہوتے ہی سب سے زیادہ دنیا سمیٹنے کی فکر ہو خدا اس کے جمع شدہ کاموں کو پراگندہ کر دیتا ہے اور اس سے سب سامان و اسباب کوبکھیر دیتا ہے اور
Flag Counter