اور فرمایا:
﴿مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَ ہُمْ یَلْعَبُوْن﴾ (الانبیاء:۲)
’’اور جب رب کی طرف سے کوئی نیا ذکر ان کے پاس آتاہے تو اسے اس حال میں سنتے ہیں کہ کھیلتے ہوتے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَکَ وَلِقَوْمِکَ ﴾ (الزخرف:۴۳)
’’یہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ذکر ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْن﴾ (ص :۵۷)
’’وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمام جہانوں کے لیے ذکر ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِی لَہٗ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ ﴾ (یسین :۲۹)
’’ہم نے اس کو شعر و شاعری نہیں سکھائی اور یہ اس کے لیے لائق بھی نہیں ہے۔ وہ توصرف ذکر ہے اور قرآن مبین ہے۔‘‘
اس سماع کے ایمانی آثار، قدسی معارف اور پاک احوال اتنے بے شمارہیں کہ یہاں ان کا بیان مشکل ہے۔ صرف روحانی آثار ہی نہیں ، جسم پر بھی اس کے مستحسن آثار نمایاں ہوتے ہیں ،قلب میں خشوع پیدا ہوتا ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ، بدن میں لرزہ پڑجاتا ہے اور ان سب کا بیان قرآن میں موجود ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ تمام علامات ظاہر ہوا کرتی تھیں ۔ پھر ان کے بعدتابعین میں تین مزید اضطرابی آثار ظاہر ہوئے،بہت
|