بھی ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں او رہر کوئی انہیں اپنے ذوق کے مطابق سمجھ سکتا ہے، ان اشعار میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے،بتوں سے محبت کرنے والے، دوستوں سے محبت کرنے والے، وطن سے محبت کرنے والے، عورتوں سے محبت کرنے والے اور لڑکوں سے محبت کرنے والے یہ سب اپنے حسب حال مطلب دیکھ سکتے ہیں ، اور مومن کبھی ایسے اشعار کو سنے گا ہی نہیں جن کے غلط معنی بھی نکل سکتے ہوں ۔
لیکن ان کا نقصان نفع سے زیادہ ہی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح شراب اور قمار میں لوگوں کے لیے بعض فائدے ہیں ،مگر ان کا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے، اسی لیے شریعت نے ان کی اجازت نہیں دی، اور یہ اس لیے کہ شریعت راجح مصلحت ہی کا لحاظ کرتی ہے، جس چیز میں مصلحت کا امکان قوی ہوتا ہے تو شریعت اسے مستحسن رکھتی ہے، لیکن جس چیز میں نقصان کا احتمال زیادہ ہوتا ہے تو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کوئی شخص پانچ درہم چوری کرے، پھر دو درہم خیرات کر ڈالے تو خیرات کرنا اگرچہ نیکی کا کام ہے مگر اس کی وجہ سے چوری مباح قرار نہیں دی جا سکتی تو یہی حال سماع کا ہے، اس میں کبھی کوئی نفع ہو سکتا ہے، مگر اس کا نقصان بہرحال نفع سے زیادہ ہی ہے، یہ نفس میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے، اس سے جذبات برانگیختہ ہو جاتے ہیں اور جب اس کی چاٹ پڑجاتی ہے تو پھرآدمی کو قرآن کی تلاوت کرنے یا سننے میں لذت محسوس نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی قرآن سے بیزاری بھی پیدا ہو جاتی ہے، اور اس کی تلاوت کرنا یا سننا نفس کے لیے بار گراں بن جاتا ہے، اس سے نفرت ہو جاتی ہے، جس طرح تورات و انجیل اور اہل کتاب و صابئین کے علوم کی تحصیل طبیعت پر گراں ہو تی ہے، اسی طرح گانے بجانے کے دلدادہ کے لیے کبھی قرآن کی تلاوت و سماع میں گرانی پیدا ہو جاتی ہے تو اس چیز کا یہی نقصان کیا کم ہے کہ آدمی کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شغف باقی نہیں رہتا؟
چونکہ سماع سے وہ بات حاصل نہیں ہوتی جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتا ہے،
|