Maktaba Wahhabi

286 - 485
کے اس کلام سے ظاہر ہے ان لوگوں کاکفر یہود و نصاریٰ سے کہیں زیادہ سخت ہے، کیونکہ یہود و نصاریٰ انبیائے کرام علیہم السلام کو باقی تمام لوگوں سے افضل سمجھتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ بعض انبیاء کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ ۲۔ دوسرے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ ان سے بالکل اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کی تھیں ۔ یہی خیال فلاسفہ اور ان کے صوفیہ کا بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے کلام محض ایک فیض تھا جو عقل فعال کی طرف سے ان کے قلب پر جاری ہو گیا تھا اور ان کا خیال ہے کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے۔ ۳۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام افضل تھے مگر ریاضت کر کے آدمی وہ خطاب سننے لگ جاتا ہے جو موسیٰ علیہ السلام نے سنا تھا۔ اگرچہ خطاب کے اصلی مخاطب صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی تھے۔ مشکوٰۃ الانوار میں یہی لکھا ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔ شاعر کا یہ کہنا کہ: ’’اے فقیہ! تو شریعت کی پابندی کر اور نماز پڑھ،‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم لوگ شریعت کو مانو، رہ گئے ہم لوگ، تو ہمارا راستہ شریعت کے علاوہ کوئی اور ہے، تو جس شخص کا دعویٰ یہ ہو کہ رضوان الٰہی اور ثواب الٰہی تک پہنچنے کا شریعت کے ماسوا دوسرا طریقہ ہے تو وہ کافر ہے، اس سے توبہ کرانی چاہیے، اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن مار دینی چاہیے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بندہ رسولوں کی پیروی کے بغیر بھی اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔بعض کا خیال ہے کہ خواص اولیاء اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اسی طرح مستغنی ہیں جس طرح حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے مستغنی تھے،لیکن یہ ان کی جہالت ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کے لیے مبعوث نہیں کیے گئے تھے اور ان کی پیروی ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ہر انسان پر واجب ہے۔ پھر حضرت خضر علیہ السلام کا معاملہ،
Flag Counter