بداعمالیوں کے شر سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں ۔ میں اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی مجھے اعتراف ہے۔ خدایا! مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوااور کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب وہ نیکی کر لیتا ہے تو(خدا پر احسان نہیں دھرتا بلکہ ) اسے محض خدا تعالیٰ کا فضل و انعام تصور کرتا ہے اور اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ صرف خدا نے ہی اسے اس کی رہنمائی فرمائی اور اسی نے اسے سہل فرمایا۔ اگر وہ برائی و گناہ کر پاتا ہے تو اس کا اقرار کرتے ہوئے تو بہ کرتا ہے، جیسا کہ کسی بزرگ کا قول ہے:
((اَطَعْتُکَ بِفَضْلِکَ وَالْمِنَّۃُ لَکَ وَعَِصَیْتُکَ بِعَلْمِکَ وَالْحُجَّۃُ لَکَ فَاسْئَکُکَ بِوُجُوْبِ حُجَّتِکَ عَلَیَّ وَانْقِطَاعِ حُجَّتِیْ اِلَّا مَا غَفَرْتَ لِیْ۔))
’’خدایا! میں تیرے فضل سے تیری اطاعت بجا لایا ہوں ، مگریہ محض تیرا ہی احسان ہے، اور تیرے علم سے تیری نافرمانی کر بیٹھا ہوں ۔ لیکن حجت تیرے ہی لیے ہے۔ لہٰذا میں اپنے اوپر تیری حجت کے وجوب اور اپنی حجت کے انقطاع کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں ، الا آنکہ آپ خود بخش دیں ۔‘‘
حدیثِ قدسی ہے:
((یَاعِبَادِیْ اِنَّمَا ھِیَ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْھَا ثُمَّ اُوْفِیْکُمْ اِیَّاھَا فَمَنْ وَجَدَ خَِیْراً فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ وَمَنْ وَّجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہٖ۔)) (صحیح مسلم)
’’میرے بندو! یہ ہیں تمہارے اعمال جو میں نے تمہارے لیے جمع کر رکھے ہیں اور وقت آنے پر سب کے سب تمہیں ادا کر دوں گا لہٰذا جس سے نیکی ہو جائے وہ خدا کا حمد و شکر کرے اور جس سے گناہ سرزد ہو جائے وہ اپنے ہی نفس کو
|