دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس مشرک سے پوچھتے ہیں کہ جو تم اس (صاحب قبر) کو پکارتے ہو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہارے حال سے زیادہ باخبر ہے اور وہ تمہاری حاجت روائی پر زیادہ قدرت رکھتا ہے یا وہ تم پر سب سے زیادہ مہربان ہے؟ تو یہ خیال تو عین جہالت ہے اور گمراہی بلکہ کفر ہے اور اگر تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال پر سب سے زیادہ با خبر ہے اور تمہاری حاجات کو پورا کرنے پر سب سے زیادہ قادر ہے اور تم پر سب سے زیادہ مہربان ہے تو پھر کیا وجہ کہ اس کو چھوڑ کر غیرسے مانگتے اور سوا ل کرتے ہو؟ کیا تم نے وہ حدیث کبھی نہیں سنی جو بخاری نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کو قرآن حکیم کی طرح دعائے استخارہ بھی سکھاتے تھے اور فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو ر کعت ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھ کر حاجت پیش کرے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمُ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌلِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیہِ وَانَّ کُنتَ تَعْلَمُ اِنَّ ھٰذا الْاَمْرُ شَرُّلِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃُ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ۔))
پھر اپنی حاجت پیش کرے اس میں ((اَسْتَخِیْرُکَ بِعَلْمِکَ وَاسْتَْقْدِرُکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظَیْم)) کہنے کا حکم دیا، جس کے یہ معنی ہیں کہ اس سے طلب خیر کی جائے کیونکہ وہ علیم ہے، اس سے قوت و توفیق کا طالب ہو کیونکہ وہ قادر ہے اور اسی سے سوال کیا جائے کیونکہ وہ صاحب فضل عظیم ہے۔
|