(۳)… ﴿فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ ﴾ (المائدہ :۴۴)
’’لوگوں سے نہ ڈرو اور ہمارا ہی ڈر مانو۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجیں اور اس کو ہماری دعاؤں کی مقبولیت کا ذریعہ بتلایا۔ رہا اکثر گمراہ لوگوں کا یہ عقیدہ کہ یہ بزرگ اللہ کے قریب ہیں اور میں اس سے دور ہوں اور بغیر اس وسیلہ کے میری دعا کی شنوائی ممکن نہیں اور اس قسم کی دوسری حجتیں ، سو یہ مشرکین کے اقوال ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:
﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ (البقرۃ:۱۸۶)
’’اور میرے بندے جب تجھ سے میری بابت سوال کرتے ہیں تو اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ میں اس قدر نزدیک ہوں کہ جس وقت کوئی پکارتا ہے میں اسے جواب دیتا ہوں ۔‘‘
اسی آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہمارا رب قریب ہے تو مناجات کیا کریں اور اسے دل میں یاد کیا کریں اور اگر بعید ہے تو بآواز بلند پکاریں ۔ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بخاری میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک سفر میں بلند آواز سے تکبیر کہہ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! آہستہ تکبیر کہو، تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو تم اس سمیع و بصیر کو پکار رہے ہو جو تم سے قریب تر ہے یا فرمایا جو تمہاری سواریوں کی گردنوں سے بھی تم سے قریب تر ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو حکم دیا ہے کہ میری نماز پڑھو اور مناجات کرو اور سب کو حکم دیا ہے کہ نماز میں کہیں ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ مگر مشرکین کے حال سے خبر دی کہ انہوں نے کہا ﴿مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾ ’’یعنی ہم ان کی پرستش محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے نزدیک کر دیں ۔‘‘
|