ہاں بعض اصحاب رسوخ کو اپنا سفارشی بنالیتے ہیں اور ان کی قبولیت سفارش کی وجہ یا تو ان کا ذاتی رعب ہوتا ہے یا حاکم کی دوستی اور رغبت یا ان کے خاندانی اوقات کی حیا و شرم یا ایسا ہی کوئی اور سبب۔ مگر دربار خداوندی میں یہ کیفیت نہیں ۔ اس کے ہاں کسی کو سفارش کی جرأت نہیں جب تک کہ وہ خود سفارش کرنے کی کسی کو اجازت نہ دے اور اس صورت میں بھی شفیع اتنی ہی سفارش کر سکتا ہے جتنی کہ اللہ کی مشیت ہو اور وہ سفارش بھی ہو گی تو اس کے اذن سے ہو گی۔ تو نتیجہ یہی نکلا کہ تمام اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعا میں یوں کہنے سے منع فرماتے تھے:
((اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنْ شِئْتَ اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِیْ اِنْ شِئْتَ۔))
’’مولیٰ اگر تیری مرضی ہو تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر۔‘‘
بلکہ فرمایا:
((وَلٰکِنْ لَیَعْزِمَ الْمَسْئَلَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا مُکْرِہَ لَہٗ۔)) (ایضا)
کہ سوال میں عزم ہو ناچاہیے۔
اس حدیث میں آپ نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی اپنی خواہش کی بات کے منوانے پر نہ تو اس طرح مجبور کر سکتا ہے جیسا اور جگہ کبھی شفیع مشفوع الیہ کو اپنی بات منوانے پر مجبور کر لیتا ہے یا جس طرح کبھی سائل سوال میں الحاح و اصرار کرکے اپنی مراد حاصل کر لیتا ہے اگرچہ مسائل عنہ اس کی حاجت روائی کرنا نہ چاہتا ہو تو اب دروازہ ایک ہی رہا کہ صدق طلب سے رب کی طرف رغبت کی جائے اوریہی واجب ہے۔
(۱)… ﴿فَاِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ﴾ (الانشراح:۷،۸)
’’پس رغبت بھی اس کی طرف چاہیے اور رہبت اور ڈرنا بھی اسی سے چاہیے۔‘‘
(۲)… ﴿وَ اِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ﴾ (البقرۃ:۴۰)
’’اور ہم ہی سے ڈرو۔‘‘
|