نہ رہے تو حضرت خضر علیہ السلام جو کسی طرح بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پایہ اور ہم رتبہ نہیں ، کیوں کر محجوب رہتے؟
اگر حضرت خضر کو حیات جاوید حاصل ہے تو کیا وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر تک نہیں کیا اور نہ امت کو اور نہ خلفائے راشدین کو اس کے متعلق خبر دی۔
اور جو یہ کہتا ہے کہ خضر نقیب اولیاء ہیں اس سے پوچھنا چاہیے کہ نقیب ان کو کس نے بنایا؟ حالانکہ بہترین اولیاء اللہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور خضر علیہ السلام تو ان میں سے ہیں نہیں ۔
خضر علیہ السلام کے متعلق جتنی روایات و حکایات منقول ہیں وہ کذب ہیں اور بعض ایسی ہیں جو لوگوں کے ظن اور تخمین پر مبنی ہیں ۔ مثلاً کسی نے دور سے کسی شخص کو دیکھا اور خیال باندھ لیا کہ وہ خضر ہے اور یہی لوگوں سے کہہ دیا۔ یا جس طرح روافض میں کسی شخص کو دیکھ کر گمان کر لیتے ہیں کہ وہ امام منتظر معصوم ہے یا یوں ہی اس امر کا دعویٰ کر لیتے ہیں ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب کسی نے ان سے خضر علیہ السلام کا ذکر کیا تو فرمایا: جس نے تجھے غائب کا حوالہ دیا اس نے تیرے ساتھ انصاف کیا۔ اور یہ شیطانی وساوس ہیں جس نے ایسی خرافات لوگوں کی زبانوں پر جاری کر دیں ۔ اس کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ ہم نے کسی اور مقام پر بحث کی ہے۔
اور قطب اور غوث فرد جامع کے قائل کی اگر یہ مراد ہے کہ امت میں ایک مرد ہوتا ہے جو تمام اہل زمانہ سے افضل ہوتا ہے تو یہ ممکن ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے دو شخص ہوں یا تین یا چار ہوں جو فضیلت میں ایک دوسرے کے مساوی ہوں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت ہو کہ اس کے افراد آپس میں ایک دوسرے پر من بعض الوجوہ فضیلت رکھتے ہوں اور وہ وجوہ یا متقارب ہوں گی یا متساوی۔ پھر جس صورت میں ایک رجل مرد وہ جو کل اہل زمانہ سے افضل ہے تو اس کا نام قطب غوث جامع رکھنا بدعت ہے جس کی اللہ نے کوئی سند نہیں نازل کی اور نہ سلف صالحین اور ائمہ سلف رحمہم اللہ نے یہ الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور سلف رحمہم اللہ
|