میں یہ بات تو ہمیشہ رہی ہے کہ بعض بزرگوں کو افضل اہل زمانہ یا من جملہ افضل زماں گمان کرتے تھے لیکن ان اسماء کا اطلاق نہیں کرتے تھے جن کی اللہ نے کوئی سند نہیں بھیجی۔
خصوصیت کے ساتھ یہ بات قابل غور ہے کہ جو لوگ اس اسم پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ اقطاب کا سلسلہ اس طرح شروع ہو تا ہے کہ پہلے قطب امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر اسی طرح یہ سلسلہ نیچے کو چلتا ہوا بعض مشائخ متاخرین تک پہنچ جاتا ہے، تو یہ خیال نہ اہل سنت کے مذہب کے مطابق صحیح ہو سکتا ہے نہ روافض کے مذہب کے مطابق۔ بھلا حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالنورین، علی بن ابی طالب اور مہاجرین و انصار میں سے سابقون الاولون رضی اللہ عنہم کہاں چلے گئے جن کا اس سلسلہ میں ذکر تک نہیں آتا؟ حالانکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بمشکل سن تمیز اور سن بلوغ کے قریب پہنچے تھے۔
اور بعض اکابر مشائخ جو اس مذہب کے گرویدہ تھے ان کا قول میرے سامنے اس طرح نقل کیا گیا کہ قطب فرد جامع ایسا ہوتا ہے کہ اس کا علم اللہ جل شانہ کے علم پر منطبق ہو تا ہے اور اس کی قدرت اللہ کی قدرت پر منطبق ہوتی ہے۔ پس جو کچھ اللہ کے علم میں ہے وہ فرد بھی اس کو جانتا ہے اور جس چیز پر اللہ تعالیٰ کو قدرت حاصل ہے وہ بھی اس پر قادر ہے اور اس کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ باتیں موجود تھیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صفت منتقل ہو کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پہنچی پھر اس طرح سلسلہ وار اس کے شیخ تک پہنچی تو میں نے جواب میں صاف بیان کیا کہ یہ عقیدہ کفر صریح اور جہل قبیح ہے۔ اوروں کا توذکر ہی چھوڑو، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس قسم کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ ﴾ (الانعام :۵۰)
’’اے پیغمبر! ان کو کہہ دو کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے
|