Maktaba Wahhabi

354 - 485
ان میں سب سے واضح یہ ہے کہ جائز ہے کہ وہ توڑ دے جیساکہ سنن میں ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم جب دن کے کسی حصہ میں سفر شروع کرتے تو روزہ توڑ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور صحیح میں ثابت حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزے کا ارادہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور روزہ توڑ دیا اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے۔[1] رہا دوسرا دن، تو اس میں بلاشبہ وہ روزہ نہیں رکھے گا،اگر اس کے سفر کی مقدار دو دن ہے جیسا کہ تمام اماموں اور جمہور کا متفقہ فیصلہ ہے۔ لیکن اگر دن کے کسی حصہ میں بھی وہ واپس آ جائے تو روزہ کو باقی رکھنے کے وجوب کے سلسلہ میں علماء میں زبردست اختلاف ہے۔ لیکن قضاء تو اس پر واجب ہے ہی چاہے روزہ باقی رکھے یا نہ رکھے۔ جس کا معمول برابر سفر کرنے کا ہے اگر اس کے پاس اپنا کوئی وطن ہے جہاں وہ قیام کرتا ہے، تو سفرمیں وہ روزہ توڑ دے، جیسے تاجر غلہ اکٹھا کرتے ہیں یا دوسرے سامان لینے جانے دیتے ہیں یا وہ شخص جو جانوروں کو کرایہ پر دیتا ہے، ڈاکیہ جو مسلمانوں کے مفاد میں پا بہ رکاب رہتا ہے، یا جیسے وہ ملاح جس کا خشکی میں مکان ہو جہاں وہ رہائش اختیارکیے ہوئے ہو۔ البتہ جس کے ساتھ کشتی میں اس کی بیوی ہو اور ساری سہولیات ہوں اور وہ برابرسفر کرے تو نہ وہ قصر کرے گانہ روزہ توڑے گا۔ اور دیہات والے جیسے بدو،کرد، ترک وغیرہ جو سردیاں کہیں اور گزارتے ہیں اور گرمیاں کہیں اور، جب وہ لوگ سفر کی حالت میں ہوں اور گر م علاقے سے سرد علاقے کی طرف یا سرد علاقے سے گر م علاقے کی طرف سفر کر رہے ہوں تو وہ قصر کریں گے۔ لیکن
Flag Counter