بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)
’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
مسند کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح اسے یہ ناپسند ہے کہ معصیت کا ارتکاب کیا جائے۔
صحیح میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں بہت روزے رکھنے والا آدمی ہوں تو کیا سفر میں بھی رکھا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم روزہ نہ رکھو تو اچھا ہے اور اگر روزہ رکھ لو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے: تم میں بہتر وہ ہیں جو سفر میں روزہ نہیں رکھتے اور قصر کرتے ہیں ۔
رہی سفر کی وہ مقدار جس میں قصر کرنی ہے اور روزہ نہیں رکھنا ہے تو امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی، اور امام احمدرحمہما اللہ کا مسلک یہ ہے کہ اونٹ سے اور پیدل دونوں کی مسافت ہے اور وہ سولہ فرسخ ہے۔
جیسے مکہ اورعسفان اور مکہ اور جدہ کے درمیان کی مسافت ہے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : تین دن کی مسافت ہے اور سلف و خلف کا ایک گروہ کہتا ہے، دو دن سے کم مسافت میں بھی قصر کیا جا سکتا ہے اور روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے اور یہ مضبوط قول ہے اس لیے کہ ثابت حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ، مزدلفہ اور منیٰ میں نمازپڑھتے تھے اور قصر کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مکہ اور دوسرے علاقوں کے لوگ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے لیکن آپ نے کسی کو نماز مکمل کرنے کا حکم نہیں دیا۔
اگر دن میں کسی وقت وہ سفر کرے تو کیا اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے؟ اس میں علماء کے دو مشہور قول ہیں اور یہ دونوں امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہیں۔
|