Maktaba Wahhabi

352 - 485
جائز ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور نمازیں قصر ادا کرے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا فقط اس کے لیے جائز ہے جو روزہ رکھنے سے عاجز ہو، تو اس سے توبہ کرائی جائے۔ اگر وہ اس قول سے توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ اسی طرح جو مسافر پر روزہ نہ رکھنے پر اظہار نکیر کرے اس سے بھی توبہ کرائی جائے۔ اور جو کہتا ہے کہ مسافر کے روزہ نہ رکھنے پر اسے گناہ ملتا ہے، تو اس سے بھی توبہ کرائی جائے۔ یہ تمام باتیں اللہ کی کتاب کے خلاف ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہیں اور اجماع امت کے خلاف ہیں ۔ اسی طرح مسافر کے لیے مسنون یہ ہے کہ چار رکعت والی نمازوں کو دو ہی رکعت ادا کرے اور اس کے لیے مکمل نماز کی ادائیگی سے قصر کرنا بہتر ہے۔ یہ امام مالک، امام احمد، امام ابوحنیفہ اور امام شافعیرحمہم اللہ کا ان کے صحیح ترین قول کے مطابق مسلک ہے۔ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کے جواز کے سلسلے میں امت میں اختلاف نہیں ہے بلکہ اختلاف اس کے لیے روزہ رکھنے کے جائز ہونے کے سلسلے میں ہے۔ سلف و خلف کا ایک گروہ کہتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے والا ایسا ہے جیسے حضر میں روزہ نہ رکھنے والا اور اگر وہ روزہ رکھ لے تو اس کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس پر قضا واجب ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، اور دوسرے اسلاف سے مروی ہے اوریہی اہل ظاہر کا مسلک ہے۔ صحیحین کی روایت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ لیکن چاروں اماموں کا مسلک یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز ہے اور نہ رکھنا بھی جائز ہے جیسا کہ صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تھے تو کچھ لوگ روزہ رکھتے تھے اور کچھ لوگ نہیں رکھتے تھے، لیکن روزہ رکھنے والا روزہ نہ رکھنے والے کو نہ ملامت کرتا نہ اس کے برعکس ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ
Flag Counter