Maktaba Wahhabi

351 - 485
المختصر کی شرح میں ابو البرکات وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اسی وقت جائز ہو گا جب وہ رمضان کی نیت ہی سے روزہ رکھے۔ یہ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ہے۔ اسے قاضی اور امام احمد رحمہ اللہ کے متعدد ساتھیوں نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا سوال:…شیخ الاسلام سے سوال کیا گیا کہ رمضان میں سفر کرنے والے پر روزہ رکھنا کیسا ہے؟جو شخص سفر میں روزہ رکھ لیتا ہے اس پر اظہار نکیر کیا جاتا ہے اور اسے جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ روزہ رکھنا افضل ہے؟ اور قصر کی مسافت کیا ہے؟ کیا جس دن سے سفر شروع ہو اس دن روزے نہ رکھے؟ کیا وہ لوگ جنہیں برابر سفر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، جیسے تاجر، جانوروں کو کرایہ پر دینے والا، اونٹوں کے ساربان ملاح، سمندر کا سفر کرنے والے وغیرہ وہ بھی سفر میں روزہ نہ رکھیں گے؟ اور سفر اطاعت اور سفر معصیت میں کیا فرق ہے؟ جواب:…آپ نے یوں جواب دیا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، مسافر کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کا متفقہ مسئلہ ہے۔ چاہے حج کا سفر ہو یا جہاد کا یا تجارت کا یا ایساکوئی سفر ہو جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند نہیں کرتے۔ سفر معصیت کے سلسلے میں اختلاف ہے ، جیسے کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لیے سفر کرے، اس میں وہ مشہور اقوال ہیں جیسا کہ صلوٰۃ قصر کے سلسلے میں اختلاف کیا ہے۔ جس سفر میں نماز قصر کی جاتی ہے اس میں قضاء کے ساتھ روزہ نہ رکھنا جائز ہے اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ اور مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، اس پر بھی تمام کا اتفاق ہے چاہے روزہ رکھنے پر اسے قدرت ہو یا نہ ہو، اور چاہے روزہ اس کے لیے مشکل ہو یا آسان، یہاں تک کہ اگر وہ سایہ اور پانی میں سفر کرے اور اس کے ساتھ خادم بھی ہو تو اس کے لیے
Flag Counter