ابن عمر، اور اسماء رضی اللہ عنہم وغیرہ سے منقول ہے۔
بہتیرے صحابہ اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ بعض صحابہ اس دن روزہ رکھنے سے منع بھی کرتے تھے۔ جیسے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما وغیرہ۔ اس لیے امام احمد رحمہ اللہ اس دن احتیاط کے پیش نظر روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔
لیکن اس دن روزہ رکھنے کو واجب کہنا، امام احمد رحمہ اللہ کی تحریروں میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے نہ ان کے کسی ساتھی کا یہ قول ہے۔ لیکن ان کے بہت سے ساتھیوں نے سمجھ لیا کہ ان کا مسلک اس دن روزہ رکھنے کے وجوب کا ہے اور اس سے انہوں نے اس قول کی تائید و تقویت کی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھنا جائز ہے اور یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک ہے اور یہی امام احمد رحمہ اللہ کا صریح منصوص مسلک ہے اور یہی بہتیرے صحابہ و تابعین کا مسلک بھی ہے۔
اس کی حیثیت بالکل ویسی ہے جیسے کسی کو طلوع فجر کا پتہ نہ چل سکے تو چاہے تو کھانے پینے سے باز آجائے اور چاہے تو اس وقت تک کھاتا پیتا رہے جب تک اسے طلوع فجر کا یقین نہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر اسے شک ہو جائے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے یا نہیں ؟ تو چاہے تو وضو کرے اور چاہے تو وضو نہ کرے ۔اسی طرح اگر اسے شک ہو جائے کہ زکوٰۃ کا ایک سال ہو گیا ہے یا نہیں ؟ یا اسے شک ہو جائے کہ اس پر واجب زکوٰۃ سو( روپے یا جانور) ہیں یا ایک سو بیس؟ تو وہ زیادہ والی تعداد کا ادا کر دے۔
سارے اصول شریعت کی بنیاد یہی ہے کہ احتیاط نہ واجب ہے نہ حرام۔ اگر وہ مطلق نیت سے روزہ رکھ لے یا مشروط نیت سے یعنی یہ کہے کہ اگر یہ دن رمضان کا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ میرا روزہ نفلی ہے تو یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اور امام احمد رحمہ اللہ کی صحیح ترین روایت کے مطابق ہے اور وہ روایت وہی ہے جسے مروزی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی کو خرقی نے
|