سے استفادہ کرتے تھے۔ اگر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کے بعد پھر رخصت دے دی تھی تو بصرہ کے باشندوں کو اس کا ضرور علم ہوتا اور حسن بصری اور ان کے ساتھی اس پر ضرور عمل کرتے، خاص طور پر جب کہ کہا جاتا ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی تھی اور ثابت رضی اللہ عنہ بصرہ کے مشہور شیخ اور حسن بصری کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھی اور اہل بصرہ کے ہاں منسوخ حدیث رائج تھی اور ناسخ حدیث انس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھی اور وہ ان سے شب و روز استفادہ کرتے تھے لیکن اس حدیث سے ناواقف تھے اور ان کے علماء کے پاس یہ حدیث موجود نہ تھی جن کے ہاں روزہ ٹوٹنے کا مسئلہ رائج تھا؟ اور اس کی تائید اس وجہ سے بھی ہوئی ہے کہ ابو قلابہ انس رضی اللہ عنہ کے خاص ساتھیوں میں تھے اور انہوں نے دو طریقوں سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ ’’حاجم و محجوم کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔‘‘
پھر اس مسلک کے ماننے والے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک ہے چار اقوال میں منقسم ہو گئے۔
پہلا قول:… پچھنا لگانے والے کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، ہاں لگوانے والے کا ٹوٹ جائے گا اس لیے کہ پچھنا لگانے والے سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوتی جو روزے کو نقصان پہنچائے۔ اس کا خرقی نے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ روزہ اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب کوئی پچھنا لگواتا ہے لیکن پچھنا لگانے والے کا کچھ نقصان نہیں ہو گا۔[1]لیکن امام احمد اور ان کے جمہور ساتھی یہی کہتے ہیں ۔
کہ دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور نص اس پر گواہ ہے اس لیے اسے ترک کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے، چاہے اس کی علت ہماری سمجھ میں نہ آئے۔
دوسرا قول:… پچھنا لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس شخص کا بھی جو
|