آٹھویں سال کی ہے اور اگر یہ حدیث محفوظ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک سال بعد دوسرے سال کہی ہے اور کسی نے ثابت الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل نہیں کیا کہ آپ نے اس کے بعد پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے انس رضی اللہ عنہ کی طرف وہ بات منسوب کر دی ہو جو آپ نے کہی، یا انہیں یہی بات معلوم رہی ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی ہے، اور کوئی زائد حکم نہ سنا ہو یا کسی تابعی نے اس سے انہیں باخبر کیا ہو۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بخاری نے جو روایت کی ہے وہ نہ انس رضی اللہ عنہ سے محفوظ ہے نہ ثابت رضی اللہ عنہ سے۔ وہ کہتے ہیں ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا آپ لوگ روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو ناپسند کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں البتہ اگر اس کی وجہ سے کمزوری آ جائے۔ اور ایک روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ۔ یہ حدیث ثابت ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں صرف یہ ہے کہ وہ لوگ صرف کمزوری کی وجہ سے اسے ناپسند کرتے تھے۔ وہ روزہ کو نہیں توڑتا ہے نہ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی رخصت دی ہو اور یہ دونوں باتیں اس قول کی مخالف ہیں کہ وہ لوگ محض کمزوری کی وجہ سے اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگر انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی ہے تو جس چیز کی رخصت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اسے کبھی مکروہ قرار نہ دیتے۔ معلوم ہوا کہ ان کے پاس محض یہ علم تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کمزوری کی وجہ سے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ اور یہی صحیح مفہوم ہے اور روزہ دار کا روزہ توڑ دینے کی علت بھی،جیسے قے کر دینے یا حیض کا خون آجانے کی وجہ سے کمزوری آتی ہے اور اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اس حکم کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خاص صحابہ نے کی ہے جو سفر و حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرون سے بھی واقف ہوتے تھے۔ جیسے بلال اور عائشہ، اسامہ، اور ثوبان رضی اللہ عنہم اور ان انصار نے روایت کی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار تھے جیسے رافع بن خدیج اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہما ۔ مسند احمد
|