روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا حال معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ برقرار رکھا جس کے خلاف منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس پر یہ حجت دو پہلوؤں سے غالب ہے ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس حدیث میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔
دارقطنی کی ایک روایت بتاتی ہے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جانے والی حدیث ناسخ ہے۔ وہ کہتے ہیں : ہمیں بغوی نے بتایا، وہ کہتے ہیں :ہمیں عثمان بن ابی شیبہ نے بتایا، وہ کہتے ہیں : ہمیں خالد بن مخلد نے بتایا، بواسطہ عبد اللہ بن مثنیٰ بواسطہ ثابت، بواسطہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں : شروع میں ہمیں روزہ دار کے لیے حجامت(پچھنا) کی کراہت اس وقت معلوم ہوئی جب جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے پچھنا لگوایا اور وہ روزہ سے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے لیے حجامت (پچھنا) کی رخصت دے دی اور انس رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے تھے۔
دارقطنی کہتے ہیں : یہ سب ثقہ ہیں اور میں اس کی کوئی علت نہیں جانتا ابو الفرج ابن الجوزی کہتے ہیں : احمد بن حنبل نے کہا: خالد بن مخلد کی بہت سی منکر احادیث ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس چیز کے منکر ہونے پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اسے کسی معتمد کتاب حدیث نے روایت نہیں کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بخاری کی شرط کے مطابق ظاہر میں ہے۔
بصریوں کا مشہورمسلک یہی رہا کہ پچھنا روزے کو توڑ دیتا ہے اور یہ بات بھی ہے کہ جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے خیبر کو چھٹے سال کے آخر میں اور ساتویں سال کے آغاز میں آئے تھے۔ اس لیے کہ خیبرکی جنگ ساتویں سال ہوئی تھی اورکہا جاتا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے موتہ کے سال آئے اور فتح مکہ میں حاضر نہیں تھے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتویں سال ایک روزہ رکھا۔
اگر یہ حکم اس سال لاگو کیا گیا تو یہ چیز پھیل گئی ہو گی اور مذکورہ حدیث اس کے بعد
|