Maktaba Wahhabi

338 - 485
کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ یہ قول ۱۸ رمضان کا ہے اور روزے اور احرام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد پچھنا لگوایا ہے۔اس لیے کہ احرام تو رمضان کے بعد ہی باندھتے ہیں اور یہ بھی ضعیف ہے اس لیے کہ مذکورہ حدیث میں یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان کے بعد کہا ہو جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجم اور محجوم دونوں کے روزہ ٹوٹ جانے کا فتویٰ دیا تھا بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعدہ ۶ہجری میں صلح حدیبیہ کے سال عمرہ کا احرام باندھا تھا اور حجۃ الوداع کے موقع پر دسویں سال حج کا احرام باندھا۔ بحالت روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پچھنا لگوانا کسی احرام میں واضح نہیں ہے منسوخ کرنے کا دعویٰ دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں یا عمرہ جعرانہ میں کیا ہو اس لیے کہ حاجم و محجوم کے روزہ ٹوٹ جانے والی حدیث غزوہ مکہ کے موقع پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا اس سے قبل کسی عمرہ میں یا تو عمرۃ القضیہ یا عمرۃ الحدیبیہ میں لگوایا ہو۔ دوسری شرط یہ کہ یہ معلوم ہو جائے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اس وقت روزے کی حالت میں نہیں تھے، لیکن حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ روزہ رمضان کے مہینے کا نہیں تھا۔ اس لیے کہ رمضان میں احرام نہیں باندھا تھا۔ بلکہ سفر میں احرام باندھا تھا اور سفر میں روزہ واجب نہیں ہے بلکہ صحیح میں جو ثابت ہے وہ یہ کہ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں روزہ نہ رکھتے تھے اور یہ کہ عام الفتح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے یہاں تک کہ جب کدید کے مقام پر پہنچے تو روزہ توڑ دیا اور لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔اس کے بعد معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں کبھی روزہ رکھا ہو۔اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جس احرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا وہ فتح مکہ سے پہلے باندھا ہو گا اور حاجم و محجوم والی حدیث بلاشبہ عام فتح مکہ کی ہے۔اسی طرح بہترین احادیث میں آیا ہے۔ احمد کہتے ہیں : ہمیں بتایااسماعیل نے بواسطہ خالد الخداء بواسطہ ابو قلابہ بواسطہ ابو اشعث بواسطہ شدادبن
Flag Counter