حیض کی حالت میں روزہ رکھنے سے یہ واجب آئے گا کہ اس میں اس کا وہ خون خارج ہو جائے جو اس کا مادہ ہے اور اس کے بدن کو نقصان پہنچے گا اور اسے کمزور کر دے گا اور اس کا روزہ اعتدال کی حدود سے نکل جائے گا اسی لیے اسے حکم دیا گیا کہ وہ ایام حیض کے ماسوا دوسرے دنوں میں روزہ رکھے۔
اس کے برعکس مستحاضہ کا معاملہ ہے۔ا س لیے کہ استحاضہ پورے اوقات پر حاوی ہے۔ اس کا کوئی متعین وقت نہیں ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھنے کا حکم دیا جائے، بلکہ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر روزہ استحاضہ کے آخرتک ملتوی کر دے تو آخر میں پھر استحاضہ آ سکتا ہے۔ا س لیے عورت کے لیے اس سے بچنا اس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح قے سے اور زخموں اور پھوڑوں سے خون رسنے سے اور احتلام سے احتراز کرناممکن نہیں۔ اس لیے اسے حیض کے خون کے برعکس روزے کا منافی نہیں بتایا۔
اس پر پچھنا اور فصد کے خون کو بھی قیاس کرسکتے ہیں ۔ پچھنا کے سلسلے میں علماء میں اختلاف ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ٹوٹتا؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کہ پچھنا لگانے اور پچھنا لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، کی بے شمار احادیث ہیں جن کی حافظین حدیث ائمہ نے توضیح کی ہے۔
متعدد صحابہ نے روزہ دار کے لیے پچھنا کو مکروہ قرار دیا ہے۔ بعض صحابہ ایسے تھے جو صرف رات میں پچھنا لگواتے تھے۔
اہل بصرہ کا معمول تھا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تو پچھنا لگانے والوں کی دکانیں بند کر دیتے تھے۔ اور حجامت (پچھنا) روزہ کو توڑ دیتی ہے یہ اکثر فقہائے حدیث کا مسلک ہے جیسے احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ، ابن المنذررحمہم اللہ وغیرہ۔
اور اہل حدیث فقہاء اسی پر عامل ہیں ، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سب سے ممتاز ہیں ۔ اورجو لوگ پچھنا لگوانے سے روزہ نہ ٹوٹنے کے قائل ہیں وہ اس حدیث سے
|