سے روزہ ٹوٹنے کو ثابت کر دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے والے کو بہت زیادہ ناک میں پانی ڈالنے سے منع کر دیا ہے جب وہ روزے سے ہو، اور استشناق ناک میں پانی ڈالنا پر ان کا قیاس ان کی مضبوط ترین دلیل ہے، جس کا ذکر آچکا ہے،حالانکہ یہ کمزور قیاس ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص ناک کے دونوں سوراخوں سے پانی کھینچے گا، پانی اس کے حلق اور پیٹ تک جائے گا اور اس سے وہ مقصد حاصل ہو جائے گا جو منہ سے پینے سے حاصل ہوتا ہے اور پانی سے اس کے بدن کو تقویت ملے گی، اس کی پیاس بجھے گی اور اس کے معدہ میں کھانا ہضم ہو گا جس طرح پانی پینے سے ہضم ہوتا ہے۔
اگر استشناق کے سلسلہ میں نص موجود نہ ہوتی توعقل سے یہ بات معلوم ہو جاتی کہ یہ بھی پینے سے ہی تعلق رکھتا ہے اور ان میں اس کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہے کہ ایک میں منہ سے پانی جاتا ہے اور دوسرے میں ناک سے اور یہ غیر معتبر ہے،بلکہ منہ تک پانی کا چلا جانا روزہ کے لیے ناقص نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ روزہ ٹوٹنے کا یہ راستہ ہے لیکن سرمہ،حقنہ، جائفہ، اور مامومہ کے علاج وغیرہ میں یہ بات نہیں ہے اس لیے کہ سرمہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہے کہ غذائیت نہیں ملتی، نہ کوئی سرمہ اپنے پیٹ، ناک یا منہ میں داخل کرتا ہے، یہی معاملہ حقنہ کا ہے، اس سے کسی صورت میں بھی غذائیت حاصل نہیں ہوتی،بلکہ بدن میں جو کچھ ہوتا ہے اسے خالی کر دیتا ہے۔ جیسے وہ کوئی مسہل دوا سونگھ لے یا اتنا خوف زدہ ہو جائے کہ اس کا پیٹ چلنے لگے۔ حقنہ معدہ تک نہیں پہنچتا [1] اور
|