اللہ اور ا س کے رسول نے کھانا اور پانی کو روزہ دار پر حرام اسی مشترک معنی کی وجہ سے ٹھہرایا ہے جو کھانے پینے کی چیزوں اور مامومہ اور جائفہ کی دوا کے دماغ اور پیٹ تک پہنچنے اور سرمہ، حقنہ اورتقطیر وغیرہ کے اندر تک اثر انداز ہونے کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اور جب اس وصف سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو متعلق کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی تو کوئی کہہ دیتا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بس اس چیز کو مفطر بنا دیا ہے اور وہ بلا دلیل یہ کہہ دیتے ہیں ۔ دوسرا بغیر دلیل کے کہتا ہے کہ اللہ نے اس چیز کو حلال کیا ہے اور اس چیز کو حرام۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سلسلے میں وہ ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کے بارے میں اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اسے اللہ نے کہا ہے یا نہیں اور یہ جائز نہیں ہے۔
اور جو علماء یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اشتراک حکم لگانے کے لیے کافی ہے تو وہ ایسے شخص کے مقام پر ہیں جو کسی ایسے مسلک کی صحت پر اعتقاد رکھتے ہیں جو صحیح نہیں ہے یا کسی لفظ کے ایسے معنی کو لیتا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مراد نہیں لیا۔ یہ اجتہاد ہے جس پر ان کو ثواب ملے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان باتوں کو شرعی حجت تسلیم کر لیا جائے جس کی اتباع مسلمانوں پر واجب ہو۔
چوتھا سبب:قیاس اس وقت صحیح ہو گا جب شارع کا کلام حکم کی علت پر دلالت نہ کرے۔
جب ہم اصل کے اوصاف کا تجزیہ کریں تو ان میں وصف معین کے سوا کوئی ایسی چیز نظر نہ آسکے جسے علت کہا جا سکے۔
اور جب ہم نے اصل کی علت مناسبت یا الٹ پھیر یا اس چیز کے قائلین کے بقول ہم آہنگ مشابہت کی وجہ سے ثابت کر دی تو ضروری ہے کہ ان کا تجزیہ کریں ورنہ اصل میں دو مناسب اوصاف ہو جائیں گے اور یہ کہنا جائز نہ ہو گا کہ یہ حکم فلاں وصف کی وجہ سے لگایا گیا ہے فلاں وصف کی وجہ سے نہیں ۔
یہ بات معلوم ہے کہ نص اور اجماع نے کھانے پینے،جماع کرنے اور حیض آنے کی وجہ
|