اگر ان چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت ضرور کرتے جیسا کہ دوسری چیزوں کے بارے میں وضاحت کی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی کوئی وضاحت نہیں فرمائی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمہ بھی خوشبو،دھونی اورتیل کی جنس سے ہے۔ دھونی کبھی کبھی ناک میں چڑھ جاتی ہے اور دماغ میں داخل ہو کر جسم میں سرایت کر جاتی ہے۔ تیل کو بدن پیتا ہے اور اپنے اندر داخل کرتا ہے اور اس سے انسان قوت محسوس کرتا ہے۔اسی طرح خوشبو سے ایک نئی قوت محسوس کرتاہے۔ جب روزہ دار کو ان چیزوں کے استعمال سے نہیں روکا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کا خوشبو استعمال کرنا، دھونی دینا اور تیل لگانا جائز ہے۔ اسی طرح سرمہ لگانے کا معاملہ بھی ہے۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان جہاد میں یا کہیں زخمی ہوتے تھے،کسی کا سر کچل جاتا تھا اور کسی کے پیٹ میں تلوار یا برچھی یا نیزہ اتر جاتا تھا۔ اگر ان چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت ضرور کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سے روزہ دار کو نہیں روکا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
تیسرا سبب یہ کہ قیاس کے ذریعہ سے تقطیر (روزہ کے لیے کسی چیز کا ناقص ہونا) کو ثابت کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ قیاس صحیح ہو یعنی قیاس یا تو اپنے جامع باب پر ہوتا ہے یا فارق کے ابطال پر۔ اگر اصل میں کسی علت کی کوئی دلیل مل جائے تو اس فرع تک پہنچا دیا جاتا ہے یا یہ معلول ہو جاتا ہے۔ شریعت میں جن اوصاف کا خیال رکھا گیا ہے ان کے سلسلہ میں ان دونوں میں کوئی فارق نہیں ہے اور یہ قیاس یہاں نابود ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جو یہ بتائے کہ جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑنے کا سبب بتایا ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز بھی دماغ یا بدن تک پہنچ جائے یا جو منفذ سے داخل ہو یا جو پیٹ تک پہنچ جائے یا اسی طرح کی اور دوسری چیزیں جن پر یہ قیل و قال کرنے والے لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
|