Maktaba Wahhabi

309 - 485
کے لیے بڑی زحمت ہے۔ شریعت نے جمع کو اسی لیے جائز کہا تا کہ مسلمان تنگی میں مبتلا نہ ہوں ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ مستحب تقدیم و تاخیر یہ نہیں ہے کہ ان دونوں کو ملا دیا جائے بلکہ مستحب یہ ہے کہ ظہر کو مؤخر کیا جائے اور عصر کو مقدم کیا جائے، چاہے ان دونوں کے درمیان زمانی فصل ہو۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں ہو، اس طرح کہ لوگ ایک نماز پڑھ لیں اور دوسری کا انتظار کریں انہیں دوبارہ گھر جا کر واپس نہ آنا پڑے۔ اسی طرح جمع کے جواز کے لیے مسلسل نماز پڑھتے رہنا شرط نہیں ہے جس کا تذکرہ ہم نے دوسرے مقامات پر کیا ہے۔ صحیح بخاری میں اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے صحیح و ثابت حدیث ہے وہ کہتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدلی کے دن رمضان میں ایک دن ہم نے افطار کیا پھر سورج نکل آیا۔‘‘ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : بدلی کے دن غروب کے یقینی ہونے تک افطار کو مؤخر کرنا مستحب نہیں ہے اس لیے کہ صحابہ نے ایسا نہیں کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے متعلق بعد کے دور کے لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور سب سے زیادہ ان کی اطاعت کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قضا واجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرقضا کا حکم دیا ہوتا تو یہ بات عام ہو تی اور یہ چیز منقول ہوتی جس طرح ان کا افطار کرنا منقول ہو کر ہم تک پہنچا ہے۔ جب ایسی کوئی چیز منقول نہیں ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہشام بن عروہ سے پوچھاگیا: کیا قضاکا حکم دیا گیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: کیا قضا سے نجات کی کوئی سبیل بھی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہشام کی تنہا رائے ہے جو انہوں نے حدیث کو سامنے رکھ کر دی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ معمر نے ان سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : میں نے ہشام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے نہیں معلوم لوگوں نے قضا کی تھی یا نہیں ۔ انہوں نے اس کا
Flag Counter