نماز بھی فوت ہونے لگے اور اس کے ساتھ افطار میں جلدی کرنے کا حکم بھی فوت ہو جائے مغرب کی نماز کی جلد ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر اس پر غروب آفتا ب کے سلسلے میں شک ہو جائے یقین کی حد تک مغرب کو مؤخر کرے گا اور بسااوقات شفق کے غروب تک وہ اسے مؤخر کردے گا لیکن اسے غروب آفتاب کا یقین نہ آ سکے گا۔
یہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور دوسرے اسلاف سے منقول ہے اور یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ بدلی کے دنوں میں لوگ مغرب کو دیر سے پڑھنا اور عشاء کو جلد پڑھ لینا مستحب سمجھتے تھے۔ اسی طرح ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں ادا کرتے تھے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ان کے بعض ساتھیوں نے ا س کی علت یہ بیان کی ہے کہ احتیاط کے پیش نظر ایسا کرتے تھے لیکن معاملہ یوں نہیں ہے اس لیے کہ عصر اور عشاء میں تویہ چیز احتیاط کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ یہ جمع بین الصلاتین اس لیے مسنون ہے کہ ان دو نمازوں کو عذر کی وجہ سے اکٹھاکر لیا جاتاہے اور بدلی بھی عذر کے قائم مقام ہے۔ اس لیے پہلی نماز بالکل آخری وقت میں اور دوسری نماز بالکل اوّلین وقت میں ادا کی جاتی تھی اور اس میں دو مصلحتیں تھیں :
۱۔ تاکہ لوگوں کو آسانی ہو جائے اور بارش کے خوف سے ایک ہی بار انہیں ادا کر لیں جس طرح کہ بارش کی حالت میں ادا کرتے ہیں ۔
۲۔ مغرب کے وقت کا ہو جانا یقینی ہو جائے۔ اسی طرح ظہر اور عصر کو واضح تر قول کے مطابق جمع کرتے تھے اوریہی امام احمد سے بھی ایک روایت آتی ہے۔ ان دونوں نمازوں کو کیچڑ اور بارش اور سخت ٹھنڈک کی وجہ سے جمع کرتے تھے۔ یہی علماء کا واضح تر قول ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول یہی ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کے مسلک میں بھی واضح ترین یہی قول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عصر اور عشاء کو مقدم کرنے کی ’’غلطی‘‘ ظہر اور مغر ب کو مقدم کرنے کی غلطی سے بہتر ہے۔ اگر آخر الذکر دونوں نمازوں کو وقت
|