نے قضا کا حکم دیا ہوتا تو یہ لوگ اسے نظر انداز ہرگز نہ کرتے کیونکہ یہ ایک شرعی حکم تھا جس کی وضاحت واجب تھی۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا کا حکم نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قضا قبول نہ ہو گی۔ اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ اس نے بھول کر یا نادانستہ نہیں بلکہ جان بوجھ کر روزہ توڑا ہے۔
جو بھول چوک کر شب باشی کر لے اس کے سلسلہ میں امام احمد اور دوسروں کے ہاں تین اقوال ملتے ہیں اور تین روایات بھی ہیں :
(۱) نہ کوئی قضا ہے نہ کفارہ اور یہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ اور بہتیرے لوگوں کا قول ہے۔
(۲) اس پر قضا واجب ہے، کفارہ نہیں ۔ یہ امام مالک کا قول ہے۔
(۳) اس پرکفارہ بھی ہے اور قضا بھی، اور یہ امام احمد کا مشہور قول ہے۔
پہلا قول بالکل واضح ہے اور وہ اپنی جگہ پر بالکل نمایاں ہے، اس لیے کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے کہ جو شخص کسی پابندی کو غلطی سے یا بھول کر توڑ ڈالے تو اللہ اس کا مواخذہ نہیں کرے گا۔ اس وقت اس کی حیثیت گویا غلطی نہ کرنے والے کی ہوئی۔اس لیے اس پر کوئی گناہ بھی نہیں آئے گا اور جس پرکوئی گناہ نہ آئے، اسے نافرمان یا ممنوع حکم کا مرتکب کیسے کہا جاسکتا ہے۔اس وقت اس کی حیثیت یہ ہوئی کہ اس نے مامور پر عمل کیا اور ممنوع ترک کر دیا۔ اس طرح کی غلطی سے عبادت باطل نہیں ہوتی۔عبادت اس وقت باطل ہوتی ہے جب کسی حکم کو انجام نہ دیا جائے یا ممنوعہ احکام کا ارتکاب کر ڈالا جائے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
|