Maktaba Wahhabi

271 - 485
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مذکور الصدر بیان میں ان وجوہ پر کافی روشنی پڑچکی ہے، یہ وجوہ درحقیقت مغالطہ سے خالی نہیں ، اور اصل بحث سے ان کا تعلق قوی نہیں کیونکہ کسی چیز کا محض لذیذ ہونا نہ اس کی حلت کی دلیل بن سکتا ہے اور نہ حرمت کی، یہ استدلال ایسا ہی ہے کہ کوئی زنا کو حلال قرار دے اور دلیل یہ پیش کرے کہ زنا میں نفس کے لیے لذت موجود ہے، کوئی طبع سلیم بھی اس کی لذت سے انکار نہیں کر سکتی، مگر محض لذت تسلیم کر لینے سے خود زنا حلال قرار نہیں پاسکتا۔ اکثر محرمات میں کوئی نہ کوئی لذت ضرور موجود ہے۔ کیا مزامیر میں نفس کو لذت حاصل نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے مگر ساتھ ہی واقعہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزامیر کو حرام قرار دیا ہے،جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ تمام اہل علم مزامیر کی حرمت پر متفق ہیں ، ابن الصلاح نے تو دف اور سارنگی پر گانے کی حرمت پربھی علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ اونٹوں اور بچوں کو اگر اچھی آواز سننے سے حظ ہوتا ہے تو یہ کوئی شرعی استدلال نہیں بن سکتا، اس سے بھی زیادہ عجیب دلیل ان حضرات کی یہ ہے کہ اچھی آواز اللہ ہی نے پیدا کی ہے، اور وہ اس کی نعمت ہے، لہٰذا اس سے لطف اندوز ہونا مباح ہے، اگر یہ اصول صحیح تسلیم کر لیا جائے تو کیا اچھی صورت بھی اللہ ہی نے نہیں پیداکی؟ کیا حسن بھی اللہ کی نعمت نہیں ؟ تو پھر کیا ہر حسین صورت سے لطف اٹھانا علی الاطلاق مباح تسلیم کر لیا جائے گا؟ یہ مذہب تو اباجی لوگوں ہی کا ہو سکتا ہے جن کی نظر میں ہر لذیذ چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اسی طرح اگر اللہ نے گدھے کی آواز کی مذمت کی ہے تو کیا اس سے طبلہ و رباب پر گانا جائز ثابت ہو سکتا ہے؟ اس مضحکہ خیز استدلال سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز استدلال یہ ہے کہ جنت میں جنتی گانا سنیں گے۔ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ جنت میں جو کچھ بھی ہو گا وہ سب اس دنیا میں جائز ہے۔ جنت میں شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، سونے چاندی کے برتن استعمال کیے جائیں گے،مرد بھی زیور سے آراستہ ہوں گے، تو کیا یہ سب باتیں اس دنیا میں
Flag Counter