مدد کرے جب تک کہ وہ آپ کی مدافعت میں ہوں ،ان کے اشعار آپ کو پسند تھے اور فرماتے تھے کہ مشرکین کی ہجو کر،روح القدس تیرے ساتھ ہے۔
۱۷۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابو کبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:
وَاِذَا نَظَرْتَ اَلیٰ اُسْرَۃَ وَجْھَہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَھَلَّلٗ
’’جب تم اس کے چہرے کودیکھو تو وہ بجلی کی طرح چمکتا ہے۔‘‘
پھر کہنے لگیں ! آپ اس وصف کے زیادہ مستحق ہیں ، اس پر آپ خوش ہو گئے۔
۱۸۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما اور اہل مدینہ نے سماع کی اجازت دی ہے اور فلاں فلاں ولی اللہ اس کی مجلسوں میں شریک ہوئے ہیں لہٰذا جو لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں ،وہ درحقیقت ان بزرگوں کی توہین کرتے ہیں ۔
۱۹۔ تمام علماء نے بالاجماع فیصلہ کیا ہے کہ خوش الحان پرندوں کی آواز سننا مباح ہے تو پھر ظاہر ہے کہ آدمی کی آواز سننا بدرجہ اولیٰ مباح ہو گا،یا کم از کم اس کی اباحت اسی درجہ کی ہو گی جس درجہ کی اباحت پرندوں کی آواز کی ہے۔ سماعت کے وقت آدمی کی روح اپنے محبوب کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اگر محبوب حرام ہے تو بلاشبہ سماع اسے حرام کے ارتکاب پر مائل کر دے گا اور اس صورت میں سماع اس کے حق میں حرام ہو گا،لیکن اگر محبوب حلال ہے تو سماع بھی اس کے حق میں حلال ہو گا۔لیکن اگر اس کا محبوب خود اللہ تعالیٰ ہے تو ظاہر ہے کہ سماع اس کے حق میں عبادت و اطاعت بن جائے گا،کیونکہ وہ قلب میں رحمانی محبت کا شعلہ بھڑکائے گا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف راغب کر دے گا۔
۲۰۔ اچھی آواز سے لطف اٹھانا بالکل ویسا ہی ہے جیسا اچھے مناظر اور اچھی بو سے لطف اٹھانا، اگر کانوں سے اچھی آواز سننا جائز نہیں تو پھر آنکھوں سے اچھا نظارہ دیکھنا اور ناک سے اچھی بو سونگھنا بھی جائز نہ ہو گا، اور ظاہر ہے کہ آج تک کسی نے یہ بات نہیں کہی۔
|