مِنْ قَسْوَرَۃٍ ﴾ (مدثر:۴۹ تا ۵۱)
’’اب ان لوگوں کو کیا بلا مار گئی کہ نصیحت سے رو گردانی کرتے ہیں کہ گویا وہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر کی صورت سے بدک کر بھاگتے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِِلَیْہِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ ﴾ (المومن:۵)
’’وہ کہنے لگے کہ تمہاری دعوت کی طرف سے دل اوٹ میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہے اور ہمارے اور تیرے درمیان پردہ پڑا ہوا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاوَّ جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا ﴾
(بنی اسرائیل:۴۵ ،۴۶)
’’جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے مابین پردہ کر دیتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر اوٹ کر دیے ہیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ڈال دیے ہیں تاکہ وہ اسے نہ سمجھیں ۔‘‘
یہی وہ سماع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ان کی نمازوں اور خطبوں میں مشروع و مقرر کیا ہے جیسے فجر کی نماز اور مغرب و عشاء کی نمازیں ، اسی سماع کے شوق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جمع ہوتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں پروردگار کو یاد دلاؤ، چنانچہ وہ تلاوت شروع کرتے تھے اور تمام حاضرین اسے سنا کرتے تھے۔
یہی وہ سماع ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ان سے
|