تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْن﴾ (الانعام :۴۰،۴۱)
’’لوگو بتلاؤ کہ اگر تم پر عذاب الٰہی آجائے یاقیامت بپا ہوجائے کیا اس وقت بھی اگر تم سچے ہو تو بجز خدا کے اور لوگوں کو بلاؤ گے؟ نہیں نہیں ، بلکہ اس وقت صرف خدا ہی کو پکاروگے۔ وہی اگر چاہے تو تمہاری پکار قبول کر کے مصیبت ٹال دے۔ اس وقت تم تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو۔‘‘
﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام :۴۲،۴۳)
’’اور اے پیغمبر! تم سے پہلے جو امتیں ہو گزری ہیں ہم ان کی طرف بھی پیغمبر بھیج چکے ہیں پھر جب انہوں نے ان کا کہا نہ مانا تو ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ پھر ہماری طرف داری کریں تو جب ان پر ہمارا عذاب آیا تھا کیوں نہیں گڑگڑائے؟ اس لیے کہ ان کے دل سخت ہو گئے تھے اور جو اعمال بد کرتے تھے شیطان نے انہیں ان کی نظروں میں آراستہ کر دیا تھا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے استسقاء کی دعا کی، کبھی نماز پڑھ کر اور کبھی بغیر نماز کے۔ اور نماز استسقاء اور صلوٰۃ کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی اور مشرکین پر فتح پانے کے لیے نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین، ائمہ مجتہدین اور مشائخ کبار کا طرزعمل رہا اور وہ علی الدوام اسی پر کاربند رہے۔
اس لیے کہا گیا ہے کہ تین چیزوں کی کوئی اصل نہیں : (۱) باب نصیریہ (۲) منتظر روافض اور (۳) غوث جہال۔ لیکن فرقہ نصیریہ باب کے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ باب وہ ہے جس
|