کرتے اور محققین محدثین کا دستور یہ تھا کہ وہ اس قسم کی احادیث کو نہیں روایت کرتے تھے کیونکہ صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ جو شخص کسی ایسی حدیث کو روایت کر دے جس کی نسبت گمان ہو کہ وہ کذب ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے، ((مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ بَحَدِیْثٍ وَھُوَ یَرٰی اَنَّہٗ کَذِبَ فَھُوَ اَحَدَ الْکَاذِبِیْن۔))
نیز مسلمان چاہتے ہیں کہ تمام نوازل و وقائع میں خواہ مرغوب چیز کی طلب کرنے کے لیے یا مرہوب چیز کے رفع کرنے کے لیے دعا کی ضرورت ہو، مثلاً استسقاء میں ، نزول رزق کے لیے، یاکسوف و خسوف اور دیگر حوادث میں رفع بلا کے لیے دعا کی ضرورت ہو تو مسلمان صرف اللہ وحدہ لا شریک سے دعا کرتے ہیں ، کسی چیز کو اس کا شریک نہیں بناتے۔
اور مسلم کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اپنی حاجات میں غیر اللہ کا واسطہ تلاش کرے اور توحید و اسلام لانے کے بعد بھی یہ خیال رکھے کہ بجز کسی خاص واسطہ کے جس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّمَّسَّہٗ ﴾ (یونس:۱۲)
’’جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں کروٹ لیے ہوئے کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں پکارتا ہے لیکن جب ہم تکلیف دور کر دیتے ہیں تو اس طرح دوڑ جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے اسے کوئی تکلیف پہنچی ہی نہ تھی۔‘‘
﴿وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ﴾ (بنی اسرائیل:۶۷)
’’ جب سمندر کے اندر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اس وقت وہاں کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔‘‘
﴿قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ
|