بخاری ومسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ کَانَ حَالِفاً فَلْیُحْلِفْ بِاللّٰہِ اَوْ لِیَصْمُتْ۔))
’’جو قسم اٹھانا چاہے وہ محض اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے۔‘‘
اور یہ بھی ارشاد ہے:
(( مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْاَشْرَکَ۔))
’’جس نے اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام سے قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت صرف اللہ واحد لا شریک کا حق ہے:
﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ (البینۃ:۵)
’’اور ان کو کوئی اور حکم نہیں دیا مگر یہی کہ خالص اللہ کی بندگی کی نیت سے ایک رخ ہو کر اسی کی عبادت کریں اور نماز پڑھیں ، زکوٰۃ ادا کریں ، اوریہی ٹھیک اور سیدھا دین ہے۔‘‘
صحیح حدیث میں یوں بھی آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خدائے تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے (۱) ((اَنْ تَعْبُدُوْہٗ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا)) ’’اسی کی عبادت کرو اور اس میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔‘‘ (۲) ((اَنْ تَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا)) ’’تمام متفق ہو کر اللہ کی رسی کو پکڑے رہو اور فرقہ بندی نہ کرو۔‘‘ (۳)(( وَاِنْ تَنَاصَحُوْا مَنْ وَلَّاہُ اللّٰہُ اَمَرَکُمْ )) ’’اور جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ولی امر (حاکم ) بنایا ہے اس کی خیر خواہی کرو۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ اصل عبادت دین کا اللہ کے لیے خالص کر دینا ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جلی و خفی، صغیر وکبیر ہر قسم کے شرک سے سخت روکاہے۔ یہاں تک کہ طلوع و غروب شمس کے وقت نماز پڑھنے سے مختلف پیرایوں میں منع کر دیا۔ کبھی تو یوں فرمایا:
|