فرمایا: اے معاذ! یہ ان کا افتراء اور بہتان ہے۔ اگر میں انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ خاوند کو سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر خاوند کا بہت بڑا حق ہے۔ پھر فرمایا: معاذ! جب میری قبر پر سے تمہارا گزر ہو تو کیا سجدہ کر و گے؟ عرض کیا: ’’نہیں ‘‘ فرمایا۔ ہاں ! ہرگز سجدہ نہ کرنا (یہ حدیث کا مضمون ہے۔ الفاظ یہی ہیں یا اس کے قریب قریب)۔
بلکہ صحیح بخاری میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں بیٹھ کر امامت کی اور اصحاب صف باندھ کر کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: اس طرح میری تعظیم نہ کرو جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی کرتے ہیں ، اورفرمایا: جو لوگ اس پر خوش ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے سامنے بت بن کر کھڑے رہا کریں تو ان کو دوزخ کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمیوں کی اس رسم کو کہ وہ بڑوں کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں یہاں تک ناپسند فرمایا اور اس کی مشابہت سے یہاں تک پرہیز کی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی حالت میں بھی کھڑا ہونے سے روک دیا حالانکہ وہ نماز میں کھڑے تھے تاکہ ان لوگوں کے ساتھ تشبہ نہ ہو جو اپنے بزرگوں اور سرداروں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور صاف فرما دیا کہ جس کو اس امر سے خوشی ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تووہ دوزخی ہے، تو پھر سجدہ کرنا، سر جھکانا، ہاتھوں کو بوسہ دینا کیوں کر جائز ہوں گے؟
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے جو زمین میں خلیفۃ اللہ تھے ایسے ملازم مقر ر کر رکھے تھے جو دربار میں داخل ہونے والے کو زمین بوسی سے روک دیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو تادیب کریں ۔
غرض قیام، قعود، رکوع اور سجدہ خدائے واحد، خالق السماوات والارض ہی کے لیے شایان اور اسی کا حق ہے اور جو خالص اللہ کا حق ہو اس میں کسی دوسرے کا کچھ حصہ نہیں ہوتا، یہاں تک کہ بجز ذات باری کسی دوسرے کے نام سے حلف اٹھانا بھی ممنوع قرار دیا گیا۔
|