لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف میں یوں فرمایا:
﴿یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾ (الاعراف:۱۵۷)
’’رسول ان کو نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے منع کرتے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزوں کو ان کے لیے حرام کرتے ہیں ۔‘‘
اور جو سوال قبر کو چھونے، چومنے اور اس پر رخسار ملنے کے متعلق کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ قبر پر… خواہ کوئی قبر ہو… ہاتھ رکھنا، اس کو بوسہ دینا اوراس پر چہرہ ملنا باتفاق مسلمین منع ہے، خواہ نبی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ سلف امت اور ائمہ سلف میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ یہ ایک قسم کا شرک ہے جیسا کہ آیت ﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ﴾ الخ (نوح :۲۳) سے ثابت ہے جس کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ تمام صلحائے قوم نوح کے نام تھے جن کے مزارات پر کچھ مدت تک لوگ معتکف ہوتے رہے پھر امتداد زمانہ سے ان کی تماثیل بنا لیں ۔ اور یہ چھونا چومنا وغیرہ امور ناجائز ہیں ، خصوصاً جب ان کے ساتھ میت کا پکارنا اور اس سے فریاد چاہنا بھی منضم ہو جائے جس کا ذکر پہلے ہو چکا، اور جو اس میں شر کی حیثیت ہے اس کی توضیح کی جاچکی اور وہاں بھی ہم نے زیارت شرعیہ اور زیارت شرکیہ میں فرق بتا دیا جس کی وجہ سے یہ قبر پرست نصاریٰ سے مشابہ ہوتے ہیں ۔
پیروں بزرگوں کے سامنے سر جھکانا یا زمین کو بوسہ دینا یا اس قسم کے اور افعال کے ممنوع ہونے میں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ غیر اللہ کے سامنے مجرد انحنا اور صرف پیٹھ جھکا دینا بھی ناجائز ہے۔ چنانچہ مسند وغیرہ میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا واقعہ موجود ہے کہ وہ شام سے لوٹے تو آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ یہ کیا؟ عرض کیا یا رسول اللہ! شام کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ اپنے پادریوں اور بزرگوں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ یہ رسم انبیائے سابقین سے چلی آتی ہے۔
|